بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حقِّ مہر کی شرعی حیثیت، مہرِ / مہر کی مقدار اور اس کی شرعی حیثیت


سوال

حق مہر کی شرعی حیثیت کیا ہے ، اس کی مقدار کیا ہونی چاہیے ، کیسے طے کرنی چاہیے ؟

جواب

واضح رہے کہ مہر عورت کا حق  ہے جو  نکاح  کی  وجہ  سے شوہر کے  ذمے  واجب ہوتا ہے، شریعت نے اس کی جلدادائیگی کی تاکید ہے،  چوں کہ مہر عورت کا حق ہے؛ اس لیے شریعت نے عورت کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ نکاح کے وقت اگر یہ شرط لگائے کہ مجھے پورا مہر معجل  (جلدی)  چاہیے تو  شوہر کو  وہ مہر جلدی دینا پڑے گا، لیکن  اگر عورت اس پر  راضی ہو کہ مہر کا کچھ حصہ معجل (جلدی) ہو اور کچھ حصہ مؤجل (تأخیر) سے ادا کردیا جائے یا مکمل مہر  ہی مؤجل ّ(تاخیر) سے ادا کیا جائے تو  پھر شوہر کے  لیے مہر میں تاخیر کرنے کی گنجائش بھی ہوگی۔نیزمہر کی مقدار کے اعتبار سے شرعاً چار صورتیں ہیں:

(1)  اقلّ مہر  :  مہر کی کم از کم مقدار شرعاً      دس درہم  مقرر ہے، (اس کا وزن2   تولہ ،ساڑھے سات ماشہ چاندی ہے ، اور موجودہ اوزان کےحساب سے   اس کی مقدار 30؍ گرام 618؍ ملی گرام چاندی ہوتی ہے)  اس سے کم مہر مقرر کرنا شرعا درست نہیں ہے، البتہ  مہر کی     زیادہ سے زیادہ کوئی مقدار متعین نہیں ہے۔

(2) مہر مثل : لڑکی کے باپ کے خاندان کی وہ لڑکیاں جو مال، جمال، دین، عمر، عقل، زمانہ، شہر، باکرہ یا ثیبہ وغیرہ  ہونے میں اس کے برابر ہوں، ان کا جتنا مہر  تھا اتنا مہر ، مہر مثل ہے، اتنا مہر عورت کا حق ہے، اگر نکاح میں مہر متعین نہ ہو تب بھی  مہر مثل ہی لازم ہوتا ہے۔

(3)  مہر مسمّیٰ: فریقین   باہمی رضامندی سے مہرِ مثل سے کم یا زیادہ  جو مہر  مقرر کریں  بشرط یہ کہ وہ دس درہم سے کم نہ ہو، اس کو  ”مہرِ مسمی“ کہتے ہیں، نکاح کے وقت فریقین جو مہر باہمی رضامندی سے طے کریں اسی کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے۔

(4)  مہر فاطمی: مہر کی وہ مقدار ہے جو  رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اوردیگر صاحبزادیوں اور  اکثر ازواجِ مطہرات کے لیے مقرر فرمائی تھی، مہر فاطمی کی مقدار پانچ سو درھم  چاندی بنتی ہے،  موجودہ دور کے حساب سے اس کی مقدار ایک سو اکتیس تولہ تین ماشہ چاندی ہے، اور گرام کے حساب سے 1.5309 کلو گرام چاندی ہے۔ 

 نکاح کے وقت ان  میں کوئی بھی مہر طے کیا جاسکتا ہے، شریعت میں مہر کی زیادہ سے زیادہ کوئی مقدار متعین نہیں ہے، اور کم از کم مقدار  دس درہم ہے، اگر مہر مقرر نہ کیا جائے تو    عورت کا حق ”مہر مثل“ہے،  لیکن شریعت نے فریقین کو اختیار دیا ہے کہ باہمی رضامندی سے مہر مثل سے کم یا زیادہ مہر مقرر کرسکتے ہیں، بشرط یہ کہ وہ دس درہم سے کم نہ ہو،اس کو  ”مہرِ مسمی“ کہتے ہیں اور اگر لڑکے کی  استطاعت  ہو تو مہر فاطمی  طے کرنا مستحب ہے۔ بہر صورت  نکاح کے وقت فریقین جو مہر باہمی رضامندی سے طے کریں اسی کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوگی۔

باقی  استطاعت سے بہت زیادہ یا دکھلاوے کے لیے بہت زیادہ مہر مقرر کرنا شرعاً ناپسندیدہ ہے، البتہ اگر شوہر کی استطاعت ہو تو مستحب یہ ہے کہ مہرِ فاطمی مقرر کرلے، لیکن یہ ضروری نہیں ہے،     چنانچہ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے خطبہ میں فرمایا کہ مہروں میں زیادتی مت کرو کیوں کہ  اگر یہ دنیا میں عزت کی بات یا اللہ کے نزدیک تقویٰ کی بات ہوتی تو سب سے زیادہ اس کے مستحق جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم تھے،  مگر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم کی کسی بیوی کا اور اسی طرح کسی بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں تھا(جس کی تفصیل ماقبل میں مہر فاطمی کے ضمن میں ذکر ہوئی )۔

نیز  بہت زیادہ  مہر  مقرر کرنے  کے  نقصانات بھی  مشاہدے میں  آتے ہیں ، مثلاً بہت جگہ موافقت نہیں ہوتی  اور بیوی کے حقوق  ادا نہیں  کیے جاتے ،مگر طلاق اس لیے نہیں دیتے کہ مہر زیادہ ہے،  یہ لوگ دعویٰ کر کے پریشان کریں گے ، لہذا  مہر کی کثرت بجائے اس کے کہ عورت کی مصلحت کا سبب ہوتا،  الٹا اس کی تکلیف کا سبب ہو گیا، کثرت مہر کی یہ خرابیاں اس وقت ہیں جب ادا نہ کیا جائے یا ادا کرنے کا ارادہ نہ ہو اور اگر مرد پر خوف خدا غالب ہے اور حقوق العباد سے اس نے سبکدوش ہونا چاہا اور ادائیگی کا ارادہ کیا تو اس وقت یہ مصیبت پیش آتی ہے کہ اتنی مقدار کا ادا کرنا اس کے تحمل سے زیادہ ہوتا ہے تو اس پر فکر اور تردد (پریشانی) کا بڑا بار پڑتا ہے اور کما کما کر ادا کرتا ہے، مگر زیادہ مقدار ہونے کی وجہ سے وہ ادا نہیں ہوتا اور وہ طرح طرح کی تنگی برداشت کرتا ہے پھر اس سے دل میں تنگی اور پریشانی ہوتی ہے اور چونکہ اس تمام تکلیف کا سبب وہ عورت ہے اس لئے اس کے نتیجہ میں اس مرد کے دل میں اس سے انقباض (دل کی تنگی) اور پھر انقباض سے نفرت پھر دشمنی پیدا ہو جاتی ہے جس کا سبب مہر کی کثرت ہے۔   جیساکہ حدیث مبارک میں ہے :

  "تياسروا في الصداق، فإن الرجل ليعطى المرأة حتى يبقى ذلك في نفسه عليها حسيكة."

" یعنی مہر کے اندر آسانی اختیار کرو اس لیے  کہ مرد عورت کو زیادہ مہر دے بیٹھتا ہے حتیٰ کہ اس دینے سے اس کے نفس کے اندر عورت کی طرف سے دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔"

(مستفاد : ازاصلاح انقلاب امت،حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ،متعلق ازمہر،2/ 128 تا135ط:ادارۃ المعارف کراچی )

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا عبد العزيز بن محمد، حدثني يزيد بن عبد الله بن أسامة بن الهاد، ح وحدثني محمد بن أبي عمر المكي، واللفظ له، حدثنا عبد العزيز، عن يزيد، عن محمد بن إبراهيم، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أنه قال: سألت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: كم كان صداق رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: «كان صداقه لأزواجه ثنتي عشرة أوقية ونشاً»، قالت: «أتدري ما النش؟» قال: قلت: لا، قالت: «نصف أوقية، فتلك خمسمائة درهم، فهذا صداق رسول الله صلى الله عليه وسلم لأزواجه."

(کتاب النکاح ،باب الصداق، ج: 4 ،ص: 144، رقم الحدیث: 1426، ط: دارالطباعة العامرۃ)

مرقاۃالمفاتیح میں ہے:

"(وعن عائشة) رضي الله عنها (قالت: «قال النبي صلى الله عليه وسلم الله عليه وسلم: إن أعظم النكاح بركة») أي: أفراده وأنواعه (أيسره) أي: أقله أو أسهله، (مؤنة) أي: من المهر والنفقة للدلالة على القناعة التي هي كنز لا ينفد ولا يفنى".

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: كتاب النكاح (5/ 2049)، ط: دار الفكر، بيروت)

وفیہ أیضاً:

"«عن عمر بن الخطاب قال: ألا لا تغالوا صدقة النساء فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا وتقوى عند الله لكان أولاكم بها نبي الله - صلى الله عليه وسلم - ما علمت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - نكح شيئا من نسائه ولا أنكح شيئا من بناته على أكثر من اثنتي عشرة أوقية» . رواه أحمد، والترمذي، وأبو داود، والنسائي، وابن ماجه، والدارمي.
 (عن عمر بن الخطاب قال ألا) للتنبيه (لا تغالوا) بضم التاء واللام (صدقة النساء) بفتح الصاد وضم الدال جمع الصداق، قال القاضي: المغالاة التكبير أي لا تكثروا مهورهن (فإنها) أي: القصة أو المغالاة يعني كثرة الأصدقة (لو كانت مكرمة) بفتح الميم وضم الراء واحدة المكارم أي مما تحمد (في الدنيا وتقوى) أي: زيادة تقوى (عند الله) أي: مكرمة في الآخرة لقوله تعالى {إن أكرمكم عند الله أتقاكم} [الحجرات: 13] وهي غير منونة وفي  نسخة بالتنوين وقد قريء شاذا في قوله تعالى {أفمن أسس بنيانه على تقوى من الله} [التوبة: 109] (لكان أولاكم بها) أي: بمغالاة المهور (نبي الله) بالرفع والنصب (- صلى الله عليه وسلم - ما علمت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - نكح شيئا) أي: تزوج أحدا (من نسائه ولا أنكح) أي: زوج (شيئا من بناته على أكثر) أي: مقدارا أكثر (من اثنتي عشرة أوقية) وهي أربعمائة وثمانون درهما وأما ما روي من الحديث الآتي أن صداق أم حبيبة كان أربعة آلاف درهم فإنه مستثنى من قول عمر لأنه أصدقها النجاشي في الحبشة عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أربعة آلاف درهم من غير تعيين من النبي - صلى الله عليه وسلم - وما روته عائشة فيما سبق من ثنتي عشرة ونشا فإنه لم يتجاوز عدد الأواقي التي ذكرها عمر ولعله أراد عدد الأوقية ولم يلتفت إلى الكسور مع إنه نفى الزيادة في علمه ولعله لم يبلغه صداق أم حبيبة ولا الزيادة التي روتها عائشة فإن قلت: نهيه عن المغالاة مخالف لقوله تعالى {وآتيتم إحداهن قنطارا فلا تأخذوا منه شيئا} [النساء: 20] قلت النص يدل على الجواز لا على الأفضلية، والكلام فيها لا فيه لكن ورد في بعض الروايات إنه قال لا تزيدوا في مهور النساء على أربعين أوقية فمن زاد ألقيت الزيادة في بيت المال، فقالت امرأة: ما ذاك لك؟ قال: ولم؟ قالت: لأن الله يقول {وآتيتم إحداهن قنطارا} [النساء: 20] فقال عمر: امرأة أصابت ورجل أخطأ، ثم ذكر السيد الجمال الدين المحدث في روضة الأحباب: إن صداق فاطمة - رضي الله عنها - كان أربعمائة مثقال فضة، وكذا ذكره صاحب المواهب ولفظه أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال لعلي إن الله عز وجل أمرني أن أزوجك فاطمة على أربعمائة مثقال فضة والجمع أن عشرة دراهم سبعة مثاقيل مع عدم اعتبار الكسور لكن يشكل نقل ابن الهمام أن صداق فاطمة كان أربعمائة درهم وعلى كل فما اشتهر بين أهل مكة من أن مهرها تسعة عشر مثقالا من الذهب فلا أصل له، اللهم إلا أن يقال إن هذا المبلغ قيمة درع علي رضي الله تعالى عنه حيث دفعها إليها مهرا معجلا والله تعالى أعلم (رواه أحمد والترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي)."

(كتاب النكاح، باب الصداق (5/ 2099)، ط: دار الفكر، بيروت)

مصنف عبد الرزاق  میں ہے:

"أخبرنا ابن جريج قال: حدثني ابن أبي الحسين: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " تياسروا في الصداق، إن الرجل يعطي المرأة حتى يبقى ذلك في نفسه عليها حسيكة، وحتى يقول: ما جئتك حتى سقت إليك علق القربة ."

 (باب غلاء الصداق، 6 / 174، ط: المجلس العلمي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أقل المهر عشرة دراهم مضروبة أو غير مضروبة حتى يجوز وزن عشرة تبرا، وإن كانت قيمته أقل، كذا في التبيين، وغير الدراهم يقوم مقامها باعتبار القيمة وقت العقد في ظاهر الرواية".

( كتاب النكاح، الباب السايع، الفصل الأول في بيان مقدار المهر  (1/ 302)، ط. رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو نكحت بأقل من مهرها فللولي) العصبة (الاعتراض حتى يتم) مهر مثلها (أو يفرق) القاضي بينهما دفعا للعار.

(قوله: دفعا للعار) أشار إلى الجواب عن قولهما ليس للولي الاعتراض. لأن ما زاد على عشرة دراهم حقها ومن أسقط حقه لا يعترض عليه ولأبي حنيفة أن الأولياء يفتخرون بغلاء المهور ويتعيرون بنقصانها فأشبه الكفاءة بحر والمتون على قول الإمام."

(کتاب النکاح،باب الکفاءۃ،3/ 94، ط:سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے :

"فإن كان الاختلاف في أصل التسمية يجب مهر المثل؛ لأن الواجب الأصلي في باب النكاح هو مهر المثل؛ لأنه قيمة البضع، وقيمة الشيء مثله من كل وجه، فكان هو العدل، وإنما التسمية تقدير لمهر المثل. فإذا لم تثبت التسمية لوقوع الاختلاف فيها، وجب المصير إلى الموجب الأصلي."

(کتاب النكاح، فصل في المهر، 2 / 305، ط: سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144504100276

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں