بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حق مہر معاف کرنا


سوال

کیا بیوی اپنا حق مہر معاف کر سکتی ہے؟

جواب

مہر بیوی کا حق ہے، طلب کرنا ،مؤخر کرنا یا معاف کرنا اس کے دائرہ اختیار میں ہے، لہٰذا اگر عورت اپنی دلی خوشی اور رضامندی سے( کسی جبر و اکراہ کےبغیر) خود معاف کردے  تو   مہر معاف ہوجائے گا اورشوہر پر مہر ادا کرنا لازم نہیں ہوگا۔ البتہ مہر معاف کرنے کےلئے شوہر کی طرف سےبیوی پر  کسی بھی قسم کی زبردستی یا جبر و اکراہ کرنا جائز  نہیں ،بلکہ یہ سراسر ظلم ہوگا۔

قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے:

{وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً} [النساء: 4]

''اوردے ڈالوعورتوں کواُن کے مہرخوشی سے ''۔(النساء:4)

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

''مطلب یہ ہے کہ جبر واکراہ اور دباؤ کے ذریعہ معافی حاصل کرنا تو کوئی چیز نہیں، اس سے کچھ معاف نہیں ہوتا، لیکن اگر وہ بالکل اپنے اختیار اور رضامندی سے کوئی حصہ مہر کا معاف کر دیں یا لینے کے بعد تمہیں واپس کر دیں تو وہ تمہارے لیے جائز ہے اور درست ہے۔"

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان ما يسقط به ‌كل ‌المهر، فالمهر كله يسقط بأسباب أربعة۔۔۔ومنها: الإبراء عن ‌كل ‌المهر قبل الدخول وبعده إذا كان المهر دينا لأن الإبراء إسقاط، والإسقاط ممن هو من أهل الإسقاط في محل قابل للسقوط يوجب السقوط۔۔۔ومنها: هبة كل المهر قبل القبض عيناً كان أو ديناً، وبعده إذا كان عيناً."

(كتاب النكاح، فصل بيان ما يسقط به ‌كل ‌المهر، 2/ 295، ط: دار الكتب العلمية)

الدر المختار میں ہے:

"(وصح حطها) لكله أو بعضه (عنه) قبل أو لا، ويرتد بالرد، كما في البحر."

(باب المھر، مطلب في حط المهر والإبراء منه، 3/ 113، ط: سعید)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101065

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں