میرا حق مہر ایک لاکھ روپے ہے، میں اپنی بیوی کو اب طلاق دینا چاہتا ہوں مگر میرے پاس ابھی حق مہر ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، کیا میں حق مہر طلاق کے بعد ادا کرسکتا ہوں، میرا حق مہر عندالطلب ہے۔
اگر نکاح کے بعد خلوتِ صحیحہ بھی ہوچکی ہے تو بیوی کو طلاق دینے کی صورت میں مکمل حق مہر یعنی ایک لاکھ روپے کی ادائیگی آپ پر لازم ہوگی، اور اگر خلوتِ صحیحہ نہیں ہوئی اور اس سے پہلے طلاق دیں گے تو اس صورت میں آدھے حق مہر یعنی پچاس ہزار روپے کی ادائیگی لازم ہوگی۔
نیز اگر آپ بیوی کو طلاق دیں گے تو طلاق تو اسی وقت مؤثر ہوجائے گی اگرچہ اس وقت مہر کی ادائیگی ممکن نہ ہو، لیکن یہ مہر آپ کے ذمہ قرض رہے گااوربیوی جس وقت چاہے اس کا مطالبہ کرسکتی ہے۔
تنویر الأبصار مع الدرالمختار میں ہے:
"(وتجب) العشرة (إن سماها أو دونها و) يجب (الأكثر منها إن سمى) الأكثر ويتأكد (عند وطء أو خلوة صحت) من الزوج (أو موت أحدهما) أو تزوج ثانيا في العدة أو إزالة بكارتها بنحو حجر بخلاف إزالتها بدفعة فإنه يجب النصف بطلاق قبل وطء ولو الدفع من أجنبي، فعلى الأجنبي أيضا نصف مهر مثلها إن طلقت قبل الدخول وإلا فكله نهر بحثاأو إزالة بكارتها بنحو حجر بخلاف إزالتها بدفعة فإنه يجب النصف بطلاق قبل وطء ولو الدفع من أجنبي، فعلى الأجنبي أيضا نصف مهر مثلها إن طلقت قبل الدخول وإلا فكله نهر بحثا."
(كتاب النكاح، باب المهر:3/ 102 ،103، 104، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144403101722
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن