بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حق کے حصول کے لیے رشوت دینا


سوال

ہماراپائپ کا کاروبار ہے،اور جو پائپ بحریا مانگ رہا ہے،ہم وہی چیز دے رہے ہیں،اگر ایک آرڈر یا دوآرڈر بحریہ والے ہمیں دیں تو وہ لوگ ہم سے خرچہ  کا مطالبہ کرتے ہیں،اگر خرچہ نہیں دیں تو وہ ہمیں آرڈر نہیں دیتے،اگر وہ آرڈر دے بھی دیں تو ہماراخرچہ پورا نہیں ہوتا،مطلب خرچہ نہ دینے کی وجہ سے وہ ہمیں آرڈر کم دیتے ہیں،اور کبھی کبھار دیتے بھی نہیں،لیباٹری میں ہم بحریہ کے مطابق پائپ دیتے ہیں،پھر بھی ہمیں خرچہ دینا پڑتا ہے،کیا یہ خرچہ دینا ہمارے لیے جائز ہے؟لیباٹری میں اگر ہمیں پانچ سو دینے پڑتے ہیں،تو دوسری فیکٹری والے چار ہزار تک دیتے ہیں،کیوں کہ ان کا پائپ دو نمبر ہوتا ہے،اگر ہم خرچہ میں فیصد طےکردیں،تو کیاایسا کرنا جائز ہے یا  نہیں؟اگر ہم پائپ کی کمائی میں  ان کوپارٹنر کردیں تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ رشوت لینے اور دینے والے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت  فرمائی ہے، چناں چہ رشوت لینا اور دینا دونوں ناجائز    اور حرام ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں بحریہ میں آرڈر دینے کے لیے وہاں کےلوگوں کا خرچہ کا مطالبہ کرناشرعاً یہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے،جس کا دینا ناجائز ہے،سائل کو چاہیے کہ بحریہ کے عملے کو اس بات کی اطلاع کریں ،تاکہ وہ اس کی روک تھام کریں،نیز ان کو دینے کے لیے فیصد متعین کرنا یہ بھی درحقیقت رشوت ہی ہے،لہذا یہ طریقہ اختیار کرنا بھی جائز نہیں۔

" سنن أبی داود"  میں ہے:

"عن أبي سلمة، عن عبد الله بن عمرو، قال:لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي."

(3/ 300،کتاب الأقضیة، باب في کراهیة الرشوة، رقم الحدیث: 3580،ط: المکتبة العصریة)

"مرقاة المفاتیح" میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي»): أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة؛ لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه."

 (کتاب الأمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني،ج:۷ ؍۲۹۵ ،ط:دارالکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101242

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں