بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حقِ حضانت اور بچی کی تربیت


سوال

میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے، میری ایک بیٹی ہے،  جس کی عمر سات سال  ہے، میرے سسرال والے بچی کو میرے ساتھ  ملنے سے منع کرتے ہیں اور اس کو مجھ سے متنفر کرتے ہیں۔مجھے اس معاملے میں چند سوالات کے جوابات دریافت کرنے ہیں، براہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمادیں۔

1)شرعاً مجھے  اپنی بیٹی سے ملنے کا حق ہے یا نہیں؟اگر سسرال والے مجھے اپنی بیٹی کے ساتھ   ملنے نہ دیں تو کیا ان کا یہ عمل درست ہے؟

2)میری بیٹی  میری وائف کے پاس ہے، تو کیا اس صورت میں بھی بیٹی کا خرچہ مجھ پر لازم ہے؟ اگر بیٹی  کا خرچہ میری ذمہ داری ہے تو میری بیٹی  ایک اسکول میں پڑھتی ہے، اس اسکول میں اس کی تعلیم کا مکمل خرچ 12500 روپے ماہانہ ہے  جبکہ میری تنخواہ 35 ہزار ہے، میں اپنی اس تنخواہ میں اتنی زیادہ رقم بچی کی تعلیم میں خرچ کرنے کا متحمل نہیں ہوں۔کیا اس صورت میں بھی مجھ پر  لازم ہے کہ  میں بچی کی تعلیم کے لیے اس قدر بھاری رقم ادا کروں؟

3)اگر میرے سسرال والے  کہیں کہ بچی کا خرچہ ہم خود کرلیں گے تو کیا اس صورت میں میرے لیے جائز ہوگا کہ میں  بیٹی کا خرچہ دینا بند کردوں؟ کیوں کہ انہوں نے میری بیٹی کو میرے خلاف کردیا ہے اور وہ مجھے بیٹی کے ساتھ نہیں ملنے دیں گے۔

جواب

واضح رہے کہ بچی کی نو سال کی عمر تک پرورش کا حق ماں کو حاصل ہوتا ہے ، نو سال کی عمر کے بعد والد کو ماں سے  بچی  لینے کا حق حاصل ہوتا ہے ، بچی والدین میں سے جس کے پاس بھی ہو اس کو یہ حق  نہیں ہوتا  کہ وہ دوسرے کو بچی کے ساتھ ملنے سے منع کرے، بچی کی جب تک شادی نہ ہوجائے اس وقت تک بچی کا تمام خرچہ شرعاً باپ  کی ذمہ داری ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب تک بچی اپنی ماں کے پاس ہے، باپ (سائل) کو  شرعاً بچی سے ملنے کا  حق حاصل ہے، سسرال والوں کا سائل کو اپنی بیٹی کے ساتھ ملنے سے منع کرنا شرعاً ناجائز ہے۔

بچی اگرچہ نو سال کی عمر تک اپنی ماں کے پاس رہے گی لیکن اس وقت میں بھی بچی کے تمام خرچے کی ذمہ داری باپ ( سائل ) پر ہی ہوگی ، اگر سائل اپنی بیٹی کو ساڑھے بارہ ہزار روپے ماہانہ خرچ کے ساتھ تعلیم دلانے پر قادر نہیں تو سائل اس  کو کسی ایسے سکول میں پڑھنے کے لیے داخل کراسکتاہے  جہاں  اخراجات کم ہوں اور تعلیم بھی معیاری ہو۔ 

 سسرال والوں کا بچی کو والد کے ساتھ ملنے سے منع کرنا اور والد سے متنفر کرنا شرعاً ناجائز ہےاور سخت گناہ کا عمل ہے، کیوں طلاق دینے سے سائل کا بیوی سے رشتہ  ختم ہوا ہے لیکن اپنی بیٹی  سے اس کا رشتہ اب بھی  برقرار ہے،لہذا سائل کو چاہیے کہ وہ اپنے سسرال والوں کو مذکورہ حکمِ شرعی سے آگاہ کرے اور ان پر بھی  لازم ہے کہ وہ اس حکمِ شرعی پر عمل کریں۔

درمختار میں ہے:

«(والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية.۔۔۔(وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى.۔۔۔(وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي»

(درمختار مع رد المحتار جلد3، کتاب الطلاق، باب الحضانۃ، ص:566، ط: ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

«(وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقا»

(قوله كأنثى مطلقا): أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة

(فتاوی شامی بھامش الدر المختار، جلد3، کتاب الطلاق، باب الحضانۃ، ص:614، ط: ایچ ایم سعید)

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

«عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس منا من خبب امرأة على زوجها أو عبدا على سيده» . رواه أبو داود»

(جلد2، کتاب النکاح،ص:973)

بدائع الصنائع میں ہے:

«أما بيان مقدار الواجب من هذه النفقة فنفقة الأقارب مقدرة بالكفاية بلا خلاف؛ لأنها تجب للحاجة فتتقدر بقدر الحاجة»

(بدائع الصنائع جلد4، باب النفقات،ص:38، ط:ایچ ایم سعید)

فقط و اللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144303100003

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں