بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حق زوجیت ادا کرنے کے بعد جماع پر قادر نہ ہونے سے فسخ نکاح کا حکم


سوال

میرے شوہر دس ،بارہ سال سے مردانہ قوت نہیں رکھتے ،ہم دونوں کے بیچ میں میاں بیوی والا رشتہ نہیں ہے ،کیا میں ان کے ساتھ رہ سکتی ہوں؟ کیوں کہ یہ شوہر ہونے کے ناطےٹھیک نہیں ہیں ،مالی حالات میں بھی ہمارے ساتھ ٹھیک نہیں ہیں ،میں نے یہ مسئلہ اپنے بہن بھائیوں کو بھی بتا یا ہے،انہوں نے میرے شوہر کو وقت بھی دیا کہ تم علاج کروالو ،مگر انہوں نے علاج نہیں کیا،بلکہ اور اکڑ دکھاتے ہیں ،پیار سے ،اور لڑ کر بھی سمجھایا  ،لیکن انہوں نے اس بارے میں کچھ غور نہیں کیا ،بلکہ مجھے ڈانٹتے ہیں  کہ میرا دماغ مت کھاؤ،میرے بھائی بہن کہتے ہیں کہ آپ انہیں چھوڑ دیں ،آپ بتائیں ایسے شخص کے ساتھ رہ سکتی ہوں ،چار سال سے ذہنی مریضہ بن چکی ہوں ،ڈاکٹر نے بھی یہ کہا ہےکہ آپ کی زندگی میں شوہر کا پیار نہیں ہے، جس کی وجہ سے آپ ڈپریشن کی مریضہ ہیں ،میری دو بیٹیاں بھی ہیں ،میں ایسے آدمی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی،  جو میری تکلیف کو دیکھ کر انجان بن کر گھوم رہا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سائلہ کا شوہر سائلہ کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کر چکا ہےاور سائلہ کی دو بیٹیاں بھی ہیں، لیکن اس کے بعد سائلہ کا شوہر کسی وجہ سے ازدواجی تعلق  قائم کرنے سے قاصر ہو گیا ہے تو ایسی صورت میں سائلہ کو نکاح فسخ کرانے کا حق نہیں ہے ،البتہ سائلہ کے شوہرپر لازم ہے  کہ وہ  اپنے علاج کی ہر ممکن کوشش کرے تاکہ بیوی کا ازدواجی حق ادا کرسکے، لیکن اگر سائلہ کا شوہر علاج کروانے کے لیے تیار نہیں ہے اور سائلہ کو اس کے ساتھ رہنے کی صورت میں عفت و پاک دامنی کاخطرہ ہے تو سائلہ اپنے شوہر سےطلاق یا مہر کے عوض خلع  حاصل کرکے جدائی اختیار کرسکتی ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"(فلو جب بعد وصوله إليها) مرة (أو صار عنينا بعده) أي الوصول (لا) يفرق لحصول حقها بالوطء مرة" وفي الشامية: "(قوله: لحصول حقها بالوطء مرة) وما زاد عليها فهو مستحق ديانة لا قضاء بحر عن جامع قاضي خان، ويأثم إذا ترك الديانة متعنتا مع القدرة على الوطء ط".

(‌‌كتاب الطلاق، باب العنين، ج:3،ص: 495، ط: سعید)

البحر الرائق  میں ہے:

"وأشار إلى أنه لو وطئها مرة لا حق لها في المطالبة لسقوط حقها بالمرة قضاء وما زاد عليها فهو مستحق ‌ديانة ‌لا ‌قضاء كما في جامع قاضي خان".

(‌‌كتاب الطلاق، باب العنين، 4/ 135، ط: دار الکتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع. اهـ. ط، وهذا هو الحكم المذكور في الآية."

(کتاب الطلاق ،باب الخلع ،ج:3،ص:441،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101368

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں