بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حق زوجیت ادا نہ کرنا


سوال

لڑکے کے ساتھ زنامیں مبتلا ہوں ،گھر والی کی طرف ذہن ہی نہیں جاتا، اور نہ اس کے جائز حقوق پورا کر سکتا ہوں ،اس کام کو چھوڑنے کی بہت کوشش کی، لیکن نہ دوائی سےفرق پڑتا ہے، اور نہ حکیم سے آخر کیا کروں کہ یہ مسئلہ ختم ہو جائے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل جس بدِفعلی میں ملوث ہے حدیث شریف میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے، اور ایسے فعلِ بد کرنے والے پر حدیث میں لعنت بھیجی گئی، یہ فعل شرعاً و عرفاً انتہائی قبیح وشنیع ، اور شرم ناک  ہے،اس کی حرمت اور مذمت قرآن پاک کی کئی آیات اور احادیثِ مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں،مثلاً: سورۂ اعراف، آیت 80 میں اسے "فاحشہ" سے تعبیر کیا گیا ہے جس کی تفسیر میں مفسرین نے وضاحت کی ہے کہ یہ (غیر محل میں شہوت پوری کرنے کے اعتبار سے) زنا کی طرح ہے۔

اس قبیح فعل پر اللہ رب العزت نے قومِ لوط کو ہلاک کردیا تھا، نیز یہ قبیح فعل اللہ کی رحمت سے دوری کا باعث ہے،بعض روایات میں اس قابلِ لعنت فعل کی بہت سخت سزائیں وارد ہوئی ہیں، شریعت میں اس کے لیے "حد"مقرر نہیں ہے، بلکہ یہ حاکمِ وقت کی صواب دید کر دیا گیا کہ وہ جو سزا تجویز کرنا  مناسب سمجھے وہ سزا تجویز کردے، مثلاً اس کو قید کیا جا سکتا ہے، اور اگر بار بار کرتا ہو تو اس کو قتل کر دیا جائے وغیرہ، ایسے مجرم کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مختلف قسم کی سزائیں ثابت ہیں۔

لہذا سائل کے لیے ضروری ہےکہ سچے دل سے توبہ کر کے آئندہ ایسے  فعلِ بدنہ کرنے کا پختہ عزم کرے، اگر سائل توبہ کر لے گا، تو امید ہے کہ اللہ تعالی معاف فر دیں گے،نیز اس بری حرکت کے دنیوی انجام کے بارے میں بھی سوچے کہ اس سے ازدواجی پُرسکون زندگی تلخ ہوجاتی ہے،بندہ ناقابل علاج جنسی امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے،اوربیوی کے حقوق ادا نہ  کرنے سے گناہ گار ہوگا، سائل کو چاہیے اپنی بیوی  کے حقوق ادا کرے،اور اِدھر اُدھر نہ بھٹکے ،چوں کہ سائل شادی شدہ ہے، لہذا اپنی خواہش کو جائز طریقے سے پوری کرے، اور اس علاوہ مذکورہ شنیع کام سے بچنے کےلئے  نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرے،  کسی متبعِ سنت بزرگ عالم سے اصلاحی تعلق قائم کرلے ، ان کی مجالس میں پابندی سے شرکت کرے،بُروں کی صحبت ترک کردے،اور ان تمام افراد سے، اور مقامات سے بھی اجتناب کرے جہاں جہاں اس قبیح فعل میں پڑنے کا اندیشہ ہو ،باجماعت نمازوں کا اہتمام کرے،اور   کثرت سے اس دعا کوہر نماز کے بعد پڑھنے کا اہتمام کریں: 

 "اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُكَ الْهُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰی."

اورساتھ ساتھ روزانہ دن یا رات میں کوئی ایک وقت مقرر کرکے اچھی طرح وضو کرکے تنہائی میں دو رکعت نماز، توبہ اور حاجت کی نیت سے پڑھ کر گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگیں، خوب روئیں، اگر رونا نہ آئے ،تو رونے کی کوشش کریں ،اور رونے جیسی شکل بنا لیں، اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے دعا کریں کہ وہ آپ کو تمام گناہوں، خصوصاً اس گناہ سے نجات دے دے، صبح و شام اور دیگر اوقات میں سید الاستغفار  بھی پڑھا کریں، سید الاستغفار یہ ہے: 

صحیح مسلم میں ہے:

"اَللّٰهَمَّ أَنْتَ رَبِّيْ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِيْ وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَی عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ ، أَبُوْءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ وَأَبُوْءُ بِذَنْبِيْ، فَاغْفِرْلِيْ فَإِنَّه لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ." 

ترجمہ:

"اے اللہ!  تو ہی میرا رب ہے،  تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا، اور میں تیرا بندہ ہوں، اور تیرے عہد ،اور وعدے پر قائم ہوں، جس قدرطاقت رکھتا ہوں، میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں،اپنے آپ پر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوں، اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں،پس مجھے بخش دے؛  کیوں کہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔"

(كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الدعاء في صلاة الليل وقيامه، ج: 2 ص: 185 ط: دار الطباعة)

تفسیر قرطبی میں ہے :

"الثانية- قوله تعالى: (أتأتون الفاحشة) ‌يعني ‌إتيان ‌الذكور. ذكرها الله باسم الفاحشة ليبين أنها زنى، كما قال الله تعالى:" ولا تقربوا الزنى إنه كان فاحشة".

(سورة الأعراف (7):الآية 80، ج:7 ص:243 ط: دارالکتب المصریة)

سنن الترمذي  میں ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لاينظر الله إلى رجل أتى رجلاً أو امرأةً في الدبر."

(أبواب الرضاع، باب ما جاء في كراهية إتيان النساء في أدبارهن، ج:3 ص:461 ط: مكتبة ومطبعة مصطفى)

مسند أحمد بن حنبل میں ہے:

"حدثنا حجاج، أخبرنا عبد الرحمن بن أبي الزناد، عن عمرو بن أبي عمرو، عن عكرمة، عن ابن عباس، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لعن الله من غير تخوم الأرض، لعن الله من ذبح لغير الله، لعن الله من لعن والديه، لعن الله من تولى غير مواليه، لعن الله من كمه أعمى عن السبيل، لعن الله من وقع على بهيمة، لعن الله من عمل عمل قوم لوط، لعن الله من عمل عمل قوم لوط " ثلاثًا."

(مسند عثمان بن عفان رضي الله عنه، ومن أخبار عثمان بن عفان رضي الله عنه، ج:5 ص:83 ط: مؤسسةالرسالة)

سنن النسائی میں ہے:

"أخبرنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا عبد العزيز وهو الدراوردي، عن عمرو وهو ابن أبي عمرو، عن عكرمة، عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال: «‌لعن ‌الله ‌من ‌عمل عمل قوم لوط، ‌لعن ‌الله ‌من ‌عمل عمل قوم لوط، ‌لعن ‌الله ‌من ‌عمل عمل قوم لوط»."

(كتاب الرجم، من عمل عمل قوم لوط، ج:6 ص: 485 ط: مؤسسةالرسالة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101818

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں