بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرعی حق مہر کی مقدار


سوال

 میری بہن کی شادی ہو رہی ہے ۔حق مہر وہ کہتے ہیں کہ ہم شرعی حق مہر ادا کریں گے ۔ شرعی حق مہر کیا ہے؟

جواب

مہر کی مقدار کے اعتبار سے چار صورتیں ہیں:

(1)  اقلّ مہر  :  مہر کی کم از کم مقدار شرعاً      دس درہم  مقرر ہے، (اس کا وزن2   تولہ ،ساڑھے سات ماشہ چاندی ہے ، اور موجودہ اوزان کےحساب سے   اس کی مقدار 30؍ گرام 618؍ ملی گرام چاندی ہوتی ہے)  اس سے کم مہر مقرر کرنا درست نہیں ہے، البتہ  مہر کی     زیادہ سے زیادہ کوئی مقدار متعین نہیں ہے۔

(2) مہر مثل : لڑکی کے باپ کے خاندان کی وہ لڑکیاں جو مال، جمال، دین، عمر، عقل، زمانہ، شہر، باکرہ یا ثیبہ وغیرہ  ہونے میں اس کے برابر ہوں، ان کا جتنا مہر  تھا اس جتنا مہر ، مہر مثل ہے، اتنا مہر عورت کا حق ہے، اگر نکاح میں مہر متعین نہ ہو تب بھی  مہر مثل ہی لازم ہوتا ہے۔

(3)  مہر مسمّیٰ: فریقین   باہمی رضامندی سے مہرِ مثل سے کم یا زیادہ  جو مہر  مقرر کریں  بشرط یہ کہ وہ دس درہم سے کم نہ ہو، اس کو  ”مہرِ مسمی“ کہتے ہیں، نکاح کے وقت فریقین جو مہر باہمی رضامندی سے طے کریں اسی کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے۔

(4)  مہر فاطمی: مہر کی وہ مقدار ہے جو  رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اوردیگر صاحبزادیوں اور  اکثر ازواجِ مطہرات کے لیے مقرر فرمائی تھی، مہر فاطمی کی مقدار پانچ سو درھم  چاندی بنتی ہے،  موجودہ دور کے حساب سے اس کی مقدار ایک سو اکتیس تولہ تین ماشہ چاندی ہے، اور گرام کے حساب سے 1.5309 کلو گرام چاندی ہے۔ 

 نکاح کے وقت ان  میں کوئی بھی مہر طے کیا جاسکتا ہے، ان میں    ہر ایک کو مختلف اعتبار سے   ” مہر شرعی“ کہا جاسکتا ہے، لہذا   نکاح وقت  مہر طے کرتے ہوئے مہر شرعی ، کہنے والا  اس سے جو مراد لے   یا اس علاقہ میں جس کو مہر شرعی کہنے کا عرف ہو ، اسی کا اعتبار کیا جائے گا۔

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا عبد العزيز بن محمد، حدثني يزيد بن عبد الله بن أسامة بن الهاد، ح وحدثني محمد بن أبي عمر المكي، واللفظ له، حدثنا عبد العزيز، عن يزيد، عن محمد بن إبراهيم، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أنه قال: سألت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: كم كان صداق رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: «كان صداقه لأزواجه ثنتي عشرة أوقية ونشاً»، قالت: «أتدري ما النش؟» قال: قلت: لا، قالت: «نصف أوقية، فتلك خمسمائة درهم، فهذا صداق رسول الله صلى الله عليه وسلم لأزواجه."

(کتاب النکاح ،باب الصداق، ج: 4 ،ص: 144، رقم الحدیث: 1426، ط: دارالطباعة العامرۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أقل المهر عشرة دراهم مضروبة أو غير مضروبة حتى يجوز وزن عشرة تبرا، وإن كانت قيمته أقل، كذا في التبيين، وغير الدراهم يقوم مقامها باعتبار القيمة وقت العقد في ظاهر الرواية".

( كتاب النكاح، الباب السايع، الفصل الأول في بيان مقدار المهر  (1/ 302)، ط. رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو نكحت بأقل من مهرها فللولي) العصبة (الاعتراض حتى يتم) مهر مثلها (أو يفرق) القاضي بينهما دفعا للعار.

(قوله: دفعا للعار) أشار إلى الجواب عن قولهما ليس للولي الاعتراض. لأن ما زاد على عشرة دراهم حقها ومن أسقط حقه لا يعترض عليه ولأبي حنيفة أن الأولياء يفتخرون بغلاء المهور ويتعيرون بنقصانها فأشبه الكفاءة بحر والمتون على قول الإمام."

(کتاب النکاح،باب الکفاءۃ،ج3،ص94، ط:سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے :

"فإن كان الاختلاف في أصل التسمية يجب مهر المثل؛ لأن الواجب الأصلي في باب النكاح هو مهر المثل؛ لأنه قيمة البضع، وقيمة الشيء مثله من كل وجه، فكان هو العدل، وإنما التسمية تقدير لمهر المثل. فإذا لم تثبت التسمية لوقوع الاختلاف فيها، وجب المصير إلى الموجب الأصلي."

(2 / 305، کتاب النكاح، فصل في المهر، ط: سعيد)

مرقاۃالمفاتیح میں ہے:

"(وعن عائشة) رضي الله عنها (قالت: «قال النبي صلى الله عليه وسلم الله عليه وسلم: إن أعظم النكاح بركة») أي: أفراده وأنواعه (أيسره) أي: أقله أو أسهله، (مؤنة) أي: من المهر والنفقة للدلالة على القناعة التي هي كنز لا ينفد ولا يفنى".

(مرقاة امفاتيح شرح مشكاة المصابيح: كتاب النكاح (5/ 2049)، ط.دار الفكر، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101888

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں