بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حق میراث ترک کرنے کا حکم


سوال

ایک بہن اپنے بیٹوں کو وصیت کر جائے کہ میرے بھتیجوں سے میرے حصہ کی وراثت نہیں لینا،  کیا اس کے بیٹے اس کے بھتیجوں سے حصہ لے سکتے ہیں؟

جواب

سوال میں یہ وضاحت موجود نہیں کہ پہلے کس کا انتقال ہوا ہے جس کی وارث مرحومہ بن رہی تھی اور اس پہلے مرحوم کے کون کون ورثا موجود تھے،  اگر سوال میں یہ بات واضح کر دی جاتی تو جواب زیادہ واضح دیا جاتا، بہرحال! اصولی جواب یہ ہے کہ اگر کوئی وارث اپنا حصہ زبانی طور پر معاف کر دے اور لینے سے انکار کر دے تو محض زبانی طور پر منع کرنے سے اس کا حصہ ساقط/ختم نہیں ہوتا، بلکہ اس کا حصہ بدستور باقی رہتا ہے اور اس کے انتقال کی صورت میں اس کے ورثا (بچوں) کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے مورث کا حق وصول کریں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ میراث میں واقعۃً مرحومہ حصہ دار تھی تو مرحومہ کے بچے مرحومہ کے بھتیجوں سے اُس کا حصہ وصول کر سکتے ہیں، اگرچہ اس نے یہ وصیت کی ہو کہ میرا حصہ وصول نہ کریں۔

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"لَوْ قَالَ الْوَارِثُ : تَرَكْتُ حَقِّي لَمْ يَبْطُلْ حَقُّهُ ؛ إذْ الْمِلْكُ لَا يَبْطُلُ بِالتَّرْكِ."

(ما یقبل الاسقاط من الحقوق، جلد:1، صفحہ:316، طبع: دارالکتب العلمیه)    

فتاوی شامی میں  ہے:

"الإرث جبري لايسقط بالإسقاط."

 (مطلب واقعۃ الفتوی، جلد:7، صفحہ:505، طبع:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100705

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں