بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یتیم بچوں کی پرورش کا حق کس کو ہے؟


سوال

میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے میرے دوبچے ہیں ایک تین سال کابیٹاایک بیٹی ہے میں دوسری شادی کے بعد بھی اپنے بچوں کو اپنے پاس رکھناچاہتی ہوں؟

نیزمیرے علاوہ بچوں پر کس کا حق ہے؟ 

جواب

 صورتِ مسئولہ میں لڑکے  کی عمر سات سال اور لڑکی کی عمر نو سال  ہونے تک پرورش کا حق سائلہ (ماں) کو حاصل  ہے۔تاہم اگر سائلہ کسی ایسے شخص سے نکاح کرے، جو بچوں کےلیے نامحرم ہو تو سائلہ کا حقِ پرورش ساقط ہوجائے گا، پھر پرورش کا حق بچوں کی نانی  اور  پھر دادی کو حاصل ہو گا۔

نیز یتیم بچوں کی کفالت یعنی: نان ونفقہ  کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ  اگر بچوں کے مرحوم والد نے مال/ترکہ چھوڑا ہے تو  ان کے مال میں سے اعتدال کے ساتھ خرچ کیا جائے گا، اور اگر مرحوم نے مال نہیں چھوڑا تو پھر بچے کا بالغ ہونے تک اور بچی کا شادی تک کا خرچ  دادا اور ماں کے ذمہ ہوگا جس میں دوتہائی دادا اور ایک تہائی ماں کے ذمہ ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب  (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية(وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى   (وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد، زيلعي."

             (باب الحضانۃ، ص/۵۶۶،۵۶۷، ج/۳، ط/سعید)

فتاوى ہندیہ ميں ہے:

"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى -: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين".

(كتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1، ص:541، ط: رشيدية)

وفیہ ایضاً:

"وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا، ثم لأخ الأب وأم، ثم لأب، ثم ابن الأخ لأب وأم، ثم ابن الأخ لأب وكذا من سفل منهم، ثم العم لأب وأم، ثم لأب فأما أولاد الأعمام فإنه يدفع إليهم الغلام فيبدأ بابن العم لأب وأم، ثم بابن العم لأب والصغيرة لا تدفع إليهم ولو كان للصغير إخوة أو أعمام فأصلحهم أولى، فإن تساووا فأسنهم كذا في الكافي"

(کتاب الطلاق،الباب السادس عشر فی الحضانۃ،342/1ط:دارالفکر)

معارف القرآن میں ہے:

"اگر یتیم بچے کی ماں اور دادا زندہ ہیں تو یہ دونوں اس بچے کے محرم بھی ہیں اور وارث بھی، اس لیے اس کا نفقہ ان دونوں پر بقدر حصہ میراث عائد ہوگا، یعنی ایک تہائی خرچہ ماں کے ذمہ اور دو تہائی دادا کے ذمہ ہوگا۔"

(ج: ۱، صفحہ: ۵۸۲، ط: ادارۃ المعارف)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100643

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں