بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حکومتی جگہ پر قبضہ کرکے تعمیر کرنے کے بعد وراثت صرف تعمیر میں جاری ہوگی یا زمین میں بھی جاری ہوگی؟


سوال

عرض یہ ہے کہ اگر  کچھ لوگ  غیر قانونی طور پر حکومت کی جگہ پر قبضہ کرکے تعمیرات کر لیں تو اس تعمیر شدہ جگہ میں وراثت صرف تعمیر میں معتبر ہوگی یا جگہ بھی شامل ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ سرکاری زمین میں  سرکار کی اجازت کے بغیر کسی قسم کاتصرف کرنا جائز نہیں ہے،یعنی حکومتی زمین پر تعمیر کرکے رہائش اختیار کرنایا کرائے پر دینا یا کسی بھی قسم کا فائد اٹھانا درست نہیں ہے،بہر صورت سرکار کی اجازت ضروری ہے۔

صورت مسئولہ میں جن لوگوں نے حکومت کی زمین پرحکومت کی اجازت کے بغیر قبضہ کرکے اس کو تعمیر کی ہے ،اور  اس سے فائدہ اٹھارہا ہے ،یہ درست نہیں ہے،اور سرکاری زمین میں وراثت جاری نہیں ہوتی،کیوں کہ وراثت اسی مال میں جاری ہوتی ہے جو مرنے والے کی ملکیت میں ہو،اور سرکاری زمین کسی کی ملکیت میں نہیں ہے،البتہ تعمیر کرنے والا شخص عمارت کا مالک ہے،اب اگر عمارت کو فروخت کرکے کچھ رقم ملتی ہے،تو اس کو ورثاء میں شریعت کے قانون کے مطابق تقسیم کی جائےگی ،زمین کو نہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي حميد الساعدي رضي الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه و ذالك لما حرم الله مال المسلم على المسلم."

(مسند احمد ابب حنبل ،ج: 39، ص: 18، رقم الحديث: 23605 ،ط: مؤسسة الرسالة)

"عن سعيد بن زيد ابن عمرو بن نفيل:أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال"من ‌اقتطع ‌شبرا من الأرض ظلما، طوقه الله إياه يوم القيامة من سبع أرضين."

(كتاب المساقاة،باب تحريم الظلم و غصب الأرض و غيرها،ج؛3، ص:1230،رقم الحديث: 1610،ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء فلا رجوع له ولو اختلفا في الإذن وعدمه، ولا بينة فالقول لمنكره بيمينه، وفي أن العمارة لها أو له فالقول له لأنه هو المتملك كما أفاده شيخنا.....(قوله عمر دار زوجته إلخ) على هذا التفصيل عمارة كرمها وسائر أملاكها جامع الفصولين، وفيه عن العدة كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء، فيمنع ولو بنى لرب الأرض، بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر."

(كتاب الوصايا، مسائل شتى، ج: 6، ص: 747، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401100322

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں