بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حنفی امام کا فقہ شافعی کے مطابق وتر کی نماز پڑھانے کا حکم


سوال

زيد كسي بيروني ملک میں امام المسجد ہے،  وہ بذاتِ  خود حنفی المسلک ہے ،  لیکن اوقاف کی طرف سے شافعی مسلک کے مطابق وتر پڑھانے پر مجبور ہے،  آیا یہ وتر کی پڑھائی ہوئی نماز اس کے  لیے اور مقتدیوں  کے لیے کافی ہے ، اور وتر ادا ہو جائے گی یا اعادہ کی ضرورت ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ فقہ حنفی میں وتر کی نماز تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنا اور دوسری رکعت پر قعدہ کرنا واجب ہے،  اگر دوسری رکعت پر بالقصد سلام پھیر دیں گے تو جمہور احناف کے ہاں نماز ِ وتر  صحیح نہیں ہے،  اس لیے کسی حنفی المسلک شخص کے  لیے اپنے مذہب کے   برخلاف وتر پڑھنا یا پڑھانا جائز نہیں، اگر کسی حنفی المسلک شخص نے اپنے مذہب کے بجائے فقہ شافعی کے مطابق وتر کی نماز ایک سلام کے بجائے دو سلاموں سے پڑھا دی تو درمیانِ نماز میں منافی  عمل (سلام)  پائے جانے کی وجہ سے امام اور مقتدیوں کی نماز فاسد ہوجائےگی، لہذا اگر حنفی امام اپنے  مسلک کے مطابق وتر پڑھانے سے معذور ہے تو وتر کی امامت کسی ایسے شخص کے حوالہ کردیا کرے جو مقتدیوں کا ہم مسلک ہو،اور اپنی وتر تنہا ادا کرلے۔

المستدرك على الصحيحين للحاكم  میں ہے:

"عن عائشة قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم لايسلم في الركعتين الأولين من الوتر. هذا حديث صحيح على شرط الشيخين و لم يخرجاه و له شواهد فمنها تعليق الذهبي في التلخيص على شرطهما المستدرك

عن عائشة قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يوتر بثلاث لايسلم إلا في آخرهن، و هذا وتر أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضي الله عنه و عنه أخذه أهل المدينة." 

(كتاب الوتر، رقم الحديث:1139،ج:1، ص:446، ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144209200199

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں