بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حنفیوں کی نمازِ وترقرآن وسنت کے مطابق ہے یانہیں؟


سوال

 میں سعودیہ میں رہتا ہوں، یہاں غیر مقلد حضرات زیادہ تنگ کرتے ہیں ،وتر نماز کو لے کرکہ حنفیوں کی نماز  قرآن وسنت  کے موافق نہیں ؟کیا حقیقت  میں حنفی کی نماز ِوتر قرآن وسنت کے مطابق ہے یا نہیں؟  حدیث کے ساتھ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

نمازِ وتر کا جو طریقہ  حضراتِ فقہاء احناف رحمہم اللہ  تعالیٰ نے   اپنی کتابوں میں لکھاہےکہ "پہلی دو رکعت معمول کے مطابق ادا کریں اور دوسری رکعت کے قعدے میں تشہد پڑھ کر فوراً تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوجائیں،سورت فاتحہ اور کوئی سورت پڑھ کر تکبیر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اٹھا کر دوبارہ باندھ لیں اور دعائے قنوت پڑھیں،اس کے بعد باقی نماز معمول کے مطابق پوری کریں، یعنی تین رکعات ایک سلام کے ساتھ اد اکرنا " یہ آنحضرت  ﷺ کی متعدد احادیث مبارکہ سے  ثابت ہے،چناں چہ  مؤطاامام محمد میں   جلیل القدروعظیم المرتبت  صحابی  رسول ، فقیہ ِ امت ، رسول اکرم ﷺ  کے خادمِ خاص حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اثر منقول ہے وہ فرماتے ہیں:

"قال محمد: أخبرنا عبد الرحمن بن عبد الله المسعودي، عن عمرو بن مرة، عن أبي عبيدة، قال: قال عبد الله بن مسعود: "الوتر ‌ثلاث كثلاث المغرب."

(ص: 96،  رقم الحدیث: 261، ط: المكتبة العلمية)

اسی طرح کنزالعمال میں حضرت صدیقہ بنتِ صدیق، ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت منقول ہے:

" ‌الوتر ‌ثلاث ‌كثلاث ‌المغرب. "طس عن عائشة."

(ج:7، ص: 487، رقم الحدیث:19536، ط:مؤسسة الرسالة)

سننِ نسائی میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے   روایت منقول ہے:

"أخبرنا يحيى بن موسى، قال: أنبأنا عبد العزيز بن خالد ، قال: حدثنا سعيد بن أبي عروبة ، عن قتادة ، عن عزرة ، عن سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى ، عن أبيه ، عن أبي بن كعب قال «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ في الوتر ب {سبح اسم ربك الأعلى}وفي الركعة الثانية ب {قل يا أيها الكافرون}، وفي الثالثة ب {قل هو الله أحد}، ولا يسلم إلا في آخرهن، ويقول يعني بعد التسليم: سبحان الملك القدوس ثلاثا."

(ج:3، ص: 235،  رقم الحدیث:1701، ط: المكتة التجارية )

   یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں ” سورۃ الاعلیٰ“، دوسری رکعت میں ” سورۃالکافرون“ اور تیسری رکعت میں ” سورۃ الاخلاص“پڑھتے تھے اور تینوں رکعتوں کے آخر میں سلام پھیر کر" سبحان الملك القدوس"  تین مر تبہ کہتے تھے ، اسی پر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عمر،حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت انس رضی اللہ عنہم اور دیگر حضرات کا عمل رہا ہے۔

 اب یہ  نکتہ  بھی واضح رہنا چاہیے کہ نصوص سے احکام کے استنباط کے لیے فقہاءِ کرام میں سے ہر ایک  کے اپنے اصول ہیں، جب کسی مسئلے کے متعلق دلائل مختلف ہوں تو ہر فقیہ اپنے اصول کی بنا پر کسی دلیل کو ترجیح دیتا ہے، وتر پڑھنے کی کیفیت کے متعلق وارد  احادیث مبارکہ چوں کہ  مختلف   ہیں  اور ائمہ فقہاء نے اپنے اپنے اصولوں کے مطابق دلائل کو ترجیح دے کر کسی ایک طریقے کو اختیار کیا ہے، لہٰذا ہمارے  فقہائے حنفیہ کے نزدیک  تین رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھنا سنت ہے، اور اس پر  متعدد احادیث مبارکہ  احناف کے پاس موجود ہیں،  جس میں  سے چند کا اوپر تذکرہ ہوا، اس مسئلے کی  مزید تفصیل محد ث العصر حضرت مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ کی " جزء الوتر"اور   علامہ زیلعی رحمہ اللہ کی”نصب الرایة“اور مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی ”اعلاء السنن“میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے،اس وجہ سے   یہ بات کہنا کہ حنفیوں کی وتر کی نماز  قرآن وسنت  کے خلاف ہے، سراسر  زیادتی اور   جہالت  ہے، ان جیسی  باتوں سے مکمل طورپر اجتناب کرنا لازمی اور ضروری ہے، اور  سائل کے لیے  بہتر یہی ہے کہ وہ کسی راسخ العلم ، متصلب حنفی عالم  کی صحبت میں   رہ کر  ان امور کے متعلق مزید معلومات حاصل کرے، یا  اکابر علماء کی اس موضوع پر کتب کا مطالعہ فرما  لیں۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102815

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں