بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ہمسایہ ملک (افغانستان )کے ساتھ روزہ رکھنے کا حکم


سوال

زید جس کی رہائش اسلام آباد پاکستان میں ہے اور پاکستان میں پہلا روزہ 3 اپریل کو تھا جبکہ زید نے 2 اپریل کو ہی ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ اپنا روزہ رکھا دلیل میں اختلاف مطالع کا بلاد قریبہ میں معتبر نہ ہونا پیش کرتا ہے ، کیا زید کا افغانستان کے ساتھ روزہ رکھنا صحیح ہے؟ اور اختلاف مطالع کی حدود کیا ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شرعی  اعتبار  سے  روزہ  رکھنے کا مدار  چاند  دیکھنے  پر  ہے، احادیثِ  مبارکہ  میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات  کی تلقین فرمائی ہے کہ  چاند دیکھ کر روزہ رکھا جائے اور چاند دیکھ کر ہی عید کی جائے،اور چاند کے مطالع طلوع ہونے کی جگہیں مختلف علاقوں میں الگ الگ ہوتے ہیں، لہذا یہ ممکن ہے کہ ایک علاقہ میں چاند نظر آجائے،جب کہ دیگرعلاقوں میں دکھائی نہ دے، اس مسئلہ کوفنی اعتبارسے "اختلافِ مطالع "سے تعبیر کیاجاتاہے۔ اس سلسلہ میں حنفیہ کے نزدیک راجح قول یہی ہے کہ قریبی شہروں میں جوایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں اختلافِ  مطالع کااعتبارنہیں، بلکہ ایک مقام پرنظرآنے والاچاند دوسرے  قریبی شہروں  کے لیے بھی حجت ہے۔ البتہ اگرکسی  ملک میں رویتِ ہلال کمیٹی مقرر ہو، جس کو سرکاری طور پر چاند ہونے یا نہ ہونے کے فیصلے کا اختیار ہو تو ان کے اعلان کا اعتبار ہو گا ،قریبی ملک کے چاند کا اعتبار نہیں ہو گا ،ہاں اگر کسی نے 29 شعبان کو خود اپنے آنکھ سے چاند دیکھ لیا لیکن حکومت کی طرف سے اعلان نہیں ہوا تو چاند دیکھنے والے آدمی پر روزہ رکھنا لازم ہو گا۔

لہذاصورت مسئولہ میں  پاکستان میں رہنے والے شخص (زید) کا پاکستان میں ہوتے ہوئےافغانستان  کی رؤیت کا اعتبار کرتے ہوئے روزہ  رکھنا شرعاً  درست نہیں،پاکستان میں رہنے والے شخص پر پاکستان کی رویت کے اعتبار سے روزہ رکھنا اور ختم کرنا ضروری ہے۔

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:

"(واختلاف المطالع) ورؤيته نهارا قبل الزوال وبعده (غير معتبر على) ظاهر (المذهب) وعليه أكثر المشايخ وعليه الفتوى بحر عن الخلاصة(فيلزم أهل المشرق برؤية أهل المغرب) إذا ثبت عندهم رؤية أولئك بطريق موجب كما مر، وقال الزيلعي: الأشبه أنه يعتبر لكن قال الكمال: الأخذ بظاهر الرواية أحوط.

(قوله: واختلاف المطالع) جمع مطلع بكسر اللام موضع الطلوع بحر عن ضياء الحلوم (قوله: ورؤيته نهارا إلخ) مرفوع عطفا على اختلاف ومعنى عدم اعتبارها أنه لا يثبت بها حكم من وجوب صوم أو فطر فلذا قال في الخانية فلا يصام له ولا يفطر وأعاده وإن علم مما قبله ليفيد أن قوله لليلة الآتية لم يثبت بهذه الرؤية بل ثبت ضرورة إكمال العدة كما قررناه فافهم (قوله: على ظاهر المذهب) اعلم أن نفس اختلاف المطالع لا نزاع فيه ...وإنما الخلاف في اعتبار اختلاف المطالع بمعنى أنه هل يجب على كل قوم اعتبار مطلعهم، ولا يلزم أحد العمل بمطلع غيره أم لا يعتبر اختلافها بل يجب العمل بالأسبق رؤية حتى لو رئي في المشرق ليلة الجمعة، وفي المغرب ليلة السبت وجب على أهل المغرب العمل بما رآه أهل المشرق، فقيل بالأول واعتمده الزيلعي وصاحب الفيض، وهو الصحيح عند الشافعية؛ لأن كل قوم مخاطبون بما عندهم كما في أوقات الصلاة، وأيده في الدرر بما مر من عدم وجوب العشاء والوتر على فاقد وقتهما وظاهر الرواية الثاني وهو المعتمد عندنا وعند المالكية والحنابلة لتعلق الخطاب عملا بمطلق الرؤية في حديث «صوموا لرؤيته» بخلاف أوقات الصلوات، وتمام تقريره في رسالتنا المذكورة". 

(رد المحتار علی الدر المختار کتاب الصوم 2/ 393ط:سعيد)

 بدائع الصنائع میں ہے:

" هذا إذا كانت المسافة بين البلدين قريبة لا تختلف فيها المطالع، فأما إذا كانت بعيدة فلا يلزم أحد البلدين حكم الآخر لأن مطالع البلاد عند المسافة الفاحشة تختلف فيعتبر في أهل كل بلد مطالع بلدهم دون البلد الآخر."

(بدائع الصنائع ، کتاب الصوم 2/ 83 ط: دار الكتب العلمية)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100120

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں