بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حاملہ کا عدت طلاق کے دوران حمل کا ضائع ہونا


سوال

مجھے طلاق ہوئی ،جب کہ میں حاملہ تھی،کچھ دن گزرے تھے،کہ حمل ضائع ہوگیا،تو اب میری عدت کتنے دن ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کاضائع ہونے والا حمل اگر چار ماہ یا اس سے زائد عرصہ کا تھا تو اس کے ضائع ہونے سے عدت ختم ہوگئی،اور اگرسائلہ کا حمل چار ماہ سے کم کا تھا تو ایسے حمل کے ضائع ہونے سے عدت ختم نہیں ہوئی،بلکہ اسے اپنی عدت(تین مکمل ماہواریاں) پوری کرنی ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)

(قوله: وضع حملها) أي بلا تقدير بمدة سواء ولدت بعد الطلاق، أو الموت بيوم، أو أقل جوهرة، والمراد به الحمل الذي استبان بعض خلقه، أو كله، فإن لم يستبن بعضه لم تنقض العدة لأن الحمل اسم لنطفة متغيرة، فإذا كان مضغة، أو علقة لم تتغير، فلا يعرف كونها متغيرة بيقين إلا باستبانة بعض الخلق بحر عن المحيط. وفيه عنه أيضا أنه لا يستبين إلا في مائة وعشرين يوما. وفيه عن المجتبى أن المستبين بعض خلقه يعتبر فيه أربعة أشهر، وتام الخلق ستة أشهر."

(كتاب الطلاق، مطلب في عدة الموت، ج:3، ص:511، ط: سعيد)

احسن الفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

"دوا یا آپریشن کے ذریعہ رحم کی صفائی کرائی جائے، اگر حمل چار ماہ یا زیادہ مدت کا تھا تو بطریقِ مذکور اسقاط سے عدت ختم ہو گئی، ورنہ تین حیض گزرنے پر عدت ختم ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

(کتاب الطلاق، باب العدۃ، ج:5، ص:430، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101474

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں