بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حاملہ بیوی کو تین طلاق دینے، بچوں کی پرورش اور مہر دینے کا حکم


سوال

میری بیوی کے ساتھ میرا پانچ سال سے مختلف موقعوں پر ناچاقی ہوتی رہی ہے، اب میری بیوی میسج پر کسی سے بات کررہی تھی تو میں نے پوچھا،  کس سے بات کررہی ہو؟ تو اس نے کہا کہ کتےکے بچے! تمہارے باپ سے، پھر میں نے پوچھا کہ تم کیا چاہتی ہو؟ تو اس نے کہا کہ میں طلاق چاہتی ہوں، تو میں نے کہا کہ تم اس پر خوش ہو ؟ تو اس نے کہا ہاں میں خوش ہوں ،تو اس پر میں نے اُسے تین بار کہا "تجھے طلاق دیتا ہوں، تجھے طلاق دیتا ہوں، تجھے طلاق دیتا ہوں"، میری بیوی اس وقت حاملہ تھی،اب مندرجہ ذیل سولات پوچھنے ہیں:

1: اس صورت میں کیا طلاق واقع ہوگئی ہے جبکہ وہ حاملہ تھی اگر ہوگئی ہے تو کتنی؟

2:اگر طلاق ہوچکی ہے تو بچے کس کے پاس رہیں گے، جبکہ میرا ایک ساڑھے چار  سال کا بیٹا ہےاور ایک چھ سال کی بیٹی ہے۔

3: اگر طلاق ہوچکی ہے تو حق مہر ایک لاکھ روپے اور پانچ مرلہ مکان ہے، کیا وہ دینا ہوگا؟

جواب

1: بیوی چاہے حاملہ ہو یا غیر حاملہ ہو طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں جب شوہر نے اپنی بیوی کو زبانی   طور پر  "تجھے طلاق دیتا ہوں " تین دفعہ  کہہ کر  طلاق دے دی تو اس سے اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اور بیوی شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی، نکاح ختم ہوچکا ہے، جس کے بعد رجوع اور دوبارہ نکاح ناجائز اور حرام ہے، مطلّقہ عدت  گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

2: میاں بیوی کے درمیان طلاق ہوجانے کے بعداولاد میں سےجب تک بچوں کی عمر سات سال اور بچیوں کی عمر نو سال نہیں ہوجاتی،  ماں کو انہیں اپنی پرورش میں رکھ نے کا حق ہے، بشرطیکہ وہ دوسری جگہ شادی نہ کرلے،  اگر اس نےبچوں کے غیرمحرم سے شادی کرلی تو ماں کا حق ساقط ہوجائے گا ، اسی طرح سے  بچوں کی نانی کو مقررہ عمر مکمل ہونے تک اپنی پرورش میں رکھنے کا حق ہوگا، البتہ اگر نانی وفات پاگئی ہوں تو بچے دادی کی پرورش میں رہیں گے ، اور اس دوران بہر صورت بچوں کے نفقہ و دیگر اخراجات کی ذمہ داری باپ پر ہوگی۔

3: اگر مذکورہ خاتون کے لئے نکاح کے وقت بطورِ  مہر ایک لاکھ روپے اور تین مرلہ مکان مقرر کیا گیا ہے تو شوہر کے ذمہ  پورا مہر اداکرنا یعنی ایک لاکھ روپے اور متوسط درجہ کا تین مرلہ والا مکان لازم ہے۔

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع  میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر."

(کتاب الطلاق، ج:3، ص: 187، ط:ایچ ایم سعيد)

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقة أو مغنية أو نائحة فلا حق لها هكذا في النهر الفائق. ولا تجبر عليها في الصحيح لاحتمال عجزها إلا أن يكون له ذو رحم محرم غيرها فحينئذ تجبر على حضانته كي لا يضيع بخلاف الأب حيث يجبر على أخذه إذا امتنع بعد الاستغناء عن الأم كذا في العيني شرح الكنز، وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير. ذكر الخصاف في النفقات إن كانت للصغيرة جدة من قبل أبيها وهي أم أبي أمها فهذه ليست بمنزلة من كانت من قرابة الأم من جهة أمها كذا في البحر الرائق."

(کتاب النکاح، الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1، ص:541، ط:مکتبہ رشیدیہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا".

(کتاب النکاح، باب الحضانۃ، ج:3، ص:566، ط:ایج ایم سعید)

فتح القدیر شرح ہدایہ میں ہے:

"ومن سمى مهرا عشرة فما زادفعليه المسمى إن دخل بها أو مات عنها؛ لأنه بالدخول يتحقق تسليم المبدل وبه يتأكد البدل، وبالموت ينتهي النكاح نهايته، والشيء بانتهائه يتقرر ويتأكد فيتقرر بجميع مواجبه".

(کتاب النکاح، باب المهر، ج:3، ص:222، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100655

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں