بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حاملہ عورت کے لیے روزے کا حکم


سوال

کیا حاملہ روزہ چھوڑ سکتی ہے , میری بیوی آٹھ مہینے کے حمل سے ہے ، رمضان کا مہینہ بالکل قریب آگیا ہے ، روزہ رکھنے میں بچے کی ولادت میں پریشانی ہوسکتی ہے ، مزید یہ کہ حاملہ کے لیے  کھانے پینے کا تقاضہ بڑھ جاتا ہے ،وقتًا فوقتًا بھوک و پیاس کا شدت سے احساس ہوتا ہے ،نیز طبی لحاظ سے پانی کثرت سے پینے کی تلقین ہے کیا ان اعذار کے پیشِ نظر وہ روزہ ترک کرسکتی ہے ؟ 

جواب

اگر حاملہ عورت کو ظنِ غالب ہو کہ روزہ رکھنے  کی صورت میں خود اس کی جان یا بچے کی صحت  کو خطرہ ہوسکتا ہے ،یا کوئی دیندار ،ماہر طبیب یہ کہے کہ روزہ سے عورت یا حمل کو نقصان ہوگا تو اس حالت میں حامله عورت روزہ ترک سکتی ہے، لیکن اس صورت میں ان قضا شدہ روزوں کی بعد میں قضا کرنا واجب ہے۔

"عن أنس بن مالك، قال: رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم للحبلى التي تخاف على نفسها أن تفطر، وللمرضع التي تخاف على ولدها."

أخرجه ابن ماجه في سننه في باب ما جاء في الإفطار للحامل والمرضع (2/ 576) برقم (1668)،ط.  دار الرسالة العالمية، الطبعة: الأولى، 1430 هـ - 2009 م

حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

قوله: "ويجوز الفطر لحامل" هي التي في بطنها حمل بفتح الحاء أي ولد.

(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح: كتاب الصوم ، باب ما يفسد الصوم ويوجب القضاء، فصل في العوارض

(ص: 684)،ط. دار الكتب العلمية بيروت،الطبعة: الطبعة الأولى 1418هـ - 1997م)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200839

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں