اگر حاملہ عورت خلع لینا چاہے تو کیا حکم ہوگا؟طلاق ہوجائےگی یا نہیں؟
اگر عورت شوہرکے ساتھ رہنے پر راضی نہیں ہے اور شوہر اسے طلاق بھی نہیں دیتا تو اسے اختیار ہے کہ اپنا حقِ مہر واپس کرکے یا کچھ مال بطور فدیہ دے کر شوہرکو رضامند کرکے خلع حاصل کرے، چناں چہ حالت حمل میں بھی خلع لینا جائز ہوگا ،اور خلع واقع ہوگا،تاہم طلاق ہو یا خلع حاملہ عورت کی عدت وضع حمل یعنی بچہ کی بیدائش تک ہوتی ہے۔
قرآنِ کریم میں ہے:
{فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ}[البقرة: 229]
ترجمہ:“سواگرتم لوگوں کو (یعنی میاں بیوی کو) یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابطِ خداوندی کوقائم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہوگا کہ اس (مال لینے دینے میں) جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے۔”(بیان القرآن)
ایک اور جگہ ارشاد باری ہے:
{وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ} [الطلاق: 4]
ترجمہ:’’حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے‘‘۔(بیان القرآن)
فتاوی شامی یں ہے:
"(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)."
(كتاب الطلاق، باب العدة،ج:3، ص: 511، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511102111
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن