بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حاملہ خاتون کو طلاق دینا / طلاق صریح میں نیت شرط نہیں


سوال

حاملہ عورت کو کیا طلاق ہو جاتی ہے، جب کہ دل میں عزم بھی نہ ہو، نہ نیت تھی، بس منہ سے نکل گئی، سورہ بقرہ کی آیت 227 کے مطابق دل میں اراد نہ تھا،  طلاق کا، منہ سے نکل گئی، بس تو طلاق نہ ہوئی؟

جواب

حاملہ عورت کو طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،  نیز صریح الفاظ سے طلاق واقع ہونے کے لیے شوہر کی جانب سے نیت و ارادہ کرنا شرعاً شرط نہیں، البتہ طلاق کی نسبت بیوی کی طرف کرنا ضروری ہے،لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر بیوی کی طرف صراحتاً یا اشارتاً نسبت کرکے طلاق دی تو طلاق ہو جائے  گی خواہ وہ حاملہ ہو۔ صحیح حدیث میں ہے کہ تین امور ایسے ہیں، جن کا وقوع بالقصد و الارادہ بھی ہوجاتا ہے اور  مذاق میں بھی ہوجاتا ہے، ان میں سے ایک طلاق بھی ہے۔

 

سائل نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 227 کا جو حوالہ دیا ہے، اس کا تعلق طلاق کے عمومی حکم سے نہیں ہے، بلکہ ایک مخصوص صورت سے ہے، جسے شریعت کی اصطلاح میں ’’ایلاء‘‘  کہا جاتا ہے، ایلاء کہتے ہیں کہ بیوی کے پاس چار ماہ یا اس سے زیادہ نہ آنے کی قسم کھانا۔ اصل کے اعتبار سے یہ قسم ہے، اور چار ماہ قریب نہ آئے تو اس سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے، اسی بابت البقرہ آیت 227 میں فرمایا گیا ہے کہ اگر قسم کھانے والے کا ارادہ طلاق کا ہی ہو تو اللہ سننے والے جاننے والے ہیں۔ اسی وجہ سے علماءِ کرام فرماتے ہیں کہ قرآنِ پاک کو براہِ راست خود سمجھنے کے بجائے ان اہلِ حق علماء کی خدمت میں رہ کر پڑھنا چاہیے جن کا سلسلۂ سند  سینہ در سینہ رسول پاک ﷺ تک پہنچتاہے، معلم  کے بغیر خود سے قرآن فہمی اور اس پر عمل سے اس طرح کی غلطیوں کا امکان رہتاہے۔
 سنن أبي داؤد  میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ثلاث جدهن جد وهزلهن جد: النكاح والطلاق والرجعة. ( عون المعبود، باب في الطلاق علي الهزل، ٥ / ٢٢٨، ط: دار الكتب العلمية)

عون المعبود شرح سنن أبي داود  میں ہے:

"قال الخطابي: اتفق عامة أهل العلم على أن صريح لفظ الطلاق إذا جرى على لسان الإنسان البالغ العاقل فإنه مؤاخذ به، ولاينفعه أن يقول: كنت لاعباً أو هازلاً أو لم أنوه طلاقاً، أو ما أشبه ذلك من الأمور". ( باب في الطلاق على الهزل، ٥ / ٢٢٨، ط: دار الكتب العلمية) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں