بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

2 جُمادى الأولى 1446ھ 05 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

حاملہ جانور کی قربانی کا حکم


سوال

جس جانور کے پیٹ میں بچہ ہو اس کی قربانی کا کیا حکم ہے؟

جواب

جس جانور کے پیٹ میں بچّہ ہو (زندہ یا مردہ) اس کا ذبح کرنا جائز ہے ،البتہ جان بوجھ کر ولادت کے قریب جانور کوذبح کرنا مکروہ ہے،اوراگر یہ جانور قربانی کا ہے تو ذبح کے بعد جو بچہ نکلےاس کو بھی ذبح کیا جائےگا،اس کا کھانا حلال ہے، اور اگر مردہ نکلے تو اس کا کھانا درست نہیں، اور اگر ذبح کرنے سے پہلے ہی مرگیا تو اس کا گوشت کھانا حرام ہے۔ 

"سنن أبي داود"  میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "ذكاة الجنين ذكاة أمه."

(‌‌كتاب الأضاحى، باب ما جاء في أكل اللحم، رقم الحديث:2828، ج:4، ص:449، ط:دار الرسالة العالمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولدت ‌الأضحية ولدا قبل الذبح يذبح الولد معها ."

"(قوله قبل الذبح) ‌فإن ‌خرج ‌من ‌بطنها حيا فالعامة أنه يفعل به ما يفعل بالأم."

(‌‌كتاب الأضحية، ج:6، ص:322، ط:سعيد)

"المحيط البرهاني" میں ہے:

"وفي النوازل أيضا: ‌رجل ‌له ‌شاة ‌حامل، فأراد ذبحها، فإن تقاربت الولادة يكره ذبحها؛ لأنه تضييع ما في بطنها من غير زيادة فائدة؛ لأنه تقارب الولادة."

(‌‌كتاب الصيد، ‌‌الفصل الثاني عشر في المتفرقات، ج:6، ص:76، ط:دار الكتب العلمية)

"الفتاوى الهندية" میں ہے:

"شاة ‌أو ‌بقرة ‌أشرفت ‌على ‌الولادة قالوا يكره ذبحها؛ لأن فيه تضييع الولد، وهذا قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - لأن عنده الجنين لا يتذكى بذكاة الأم، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الذبائح، الباب الأول، ج:5، ص:287، ط:رشيدية)

"الموسوعة الفقهية الكويتية" میں ہے:

"وإن خرج حيا حياة مستقرة لا يحل إلا بالتذكية اتفاقا؛ لأنه نفس مستقلة، فلا بد من ذكاتها. أما إن خرج بعد تذكية الحامل من غير أن يعلم موته قبل التذكية، وغلب على الظن أن موته بسبب تذكية أمه فجمهور الفقهاء (المالكية والشافعية والحنابلة والصاحبان من الحنفية) على أنه يحل أكله؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: ذكاة الجنين ذكاة أمه . ولأن الجنين متصل بها اتصال خلقة يتغذى بغذائها، ويباع ببيعها، فتكون ذكاته بذكاتها كأعضائها. وقال أبو حنيفة: لا يحل حتى يخرج حيا فيذكى؛ لأنه حيوان ينفرد بحياته، فلا يتذكى بذكاة غيره كما بعد الوضع."

(‌‌أحكام الحامل، في التذكية، ج:16، ص:280، ط:دارالسلاسل الكويت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100004

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں