بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حاملہ بیوی کو غصے کی حالت میں طلاق کا حکم


سوال

ایک بندے نے اپنی بیوی کو غصہ کی حالت میں تین طلاقیں دی هیں  جب کہ بیوی حمل سے تھی، کیا اس صورت میں طلاقیں واقع هو گئی  هیں؟

جواب

واضح ہو کہ طلاق عموماً  غصہ کی ہی حالت میں دی جاتی ہے، اور غصہ  کی حالت میں دی گئی طلاق شرعاً واقع ہوجاتی ہے۔ نیز حمل کی حالت میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ شخص کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور وہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، اب نہ رجوع کی اجازت ہے، اور نہ ہی نکاح کی تجدید کی جاسکتی ہے۔

الفتاوى الهندية (1 / 473):

 وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحلّ له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثمّ يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية. و لا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولًا بها أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير."

فتاوی شامی میں ہے :

"قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان، قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لايتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه، الثاني أن يبلغ النهاية فلايعلم ما يقول ولايريده، فهذا لا ريب أنه لاينفذ شيء من أقواله، الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون، فهذا محل النظر، والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله اهـ  ملخصاً من شرح الغاية الحنبلية، لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حيث قال: ويقع طلاق من غضب خلافاً لابن القيم اهـ وهذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش".(3/244) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200865

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں