بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حاملہ عورت کے لیے کسی میت کی تعزیت پر جانے کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ


سوال

ہمارے یہاں کسی نے کہا کہ حاملہ عورت کو میت میں شامل نہیں ہونا چاہیے،  اور میت کا پانی انگلنے سے بچہ کمزور پیدا ہوتا ہے ، اور پیدائش میں تکلیف ہوتی ہے، اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ میت کا پانی انگلنے سے بچے کو پیدا ہونے کے بعد پیٹھ پر بہت سے جراثیم چمٹ جاتے ہیں،  اور اس کے لیے گیہوں کا آٹا لگا لگا کے ان جراثیم اور چھوٹے چھوٹے کیڑوں کو نکالنا پڑتا ہے،  اور یہ کام تین ہفتے ہر اتوار کو کرنا ہوگا،  تو میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ یہ بات درست ہے یا نہیں؟  اور قرآن حدیث میں حاملہ کو میت کے پاس جانے یا میت میں ہونے کے متعلق کیا بیان ہے؟  براہِ کرم جواب تفصیل میں بتائیے اور عربی احادیث کا اردو ترجمہ ضرور لکھیں ۔ امید ہے جواب جلد دیا جائے گا ۔

جواب

سوال میں ذکر کردہ باتوں  کی شریعت میں  کوئی اصل نہیں، یہ باتیں  عوام میں رائج غلط عقائد و رسومات میں سے ہیں ،اگر حاملہ عورت بھی میت کے گھر تعزیت کے لیے جانا چاہے تو پردے کے ساتھ جاسکتی ہے،  اور اگر گھر دور ہو تو محرم کے ساتھ جاسکتی ہے، میت کا سایہ ہونے اور عورت یا اس کے بچے پر میت کا  سایہ یا کوئی اثر  پڑنے کی  بات محض بدشگونی اور توہم پرستی ہے جس کا اسلام میں  کوئی تصور   نہیں ؛لہٰذا اس قسم کے غلط خیالات  سے بچنا چاہیے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه:عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (‌لا ‌عدوى ‌ولا طيرة، ولا هامة ولا صفر)."

"ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:نہ بیماری ایک سے دوسری کو لگتی ہے، نہ (ہی) مرنے والے کی روح پرندے کی شکل میں دنیا میں آتی ہے، نہ کسی ستارے کی کوئی تاثیر ہے اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے۔"

(كتاب الطب، باب: لا هامة، ولا صفر، ج:5، ص:2171، ط: دار إبن كثير)

فیض القدیر میں ہے:

"إن كان الشؤم) ضد اليمن مصدر تشاءمت وتيمنت قال الطيبي: واوه همزة خففت فصارت واوا ثم غلب عليها التخفيف ولم ينطق بها مهموزة (في شيء) من الأشياء المحسوسة حاصلا (ففي الدار والمرأة والفرس) يعني إن كان للشؤم وجود في شيء يكون في هذه الأشياء فإنها أقبل الأشياء له لكن لا وجود له فيها فلا وجود له أصلا ذكره عياض أي إن كان في شيء يكره ويخاف عاقبته ففي هذه الثلاث قال الطيبي: وعليه فالشؤم محمول على الكراهة التي سببها ما في الأشياء من مخالفة الشرع أو للطبع."

(حرف الهمزة، ج:3، ج:23، ط:المكتبة التجارية الكبرى )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507102093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں