بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حاملہ عورت کے کسی کی میت پر جانے سے متعلق ایک عوامی غلط فہمی کا ازالہ


سوال

ہمارے خاندان میں عورتیں یہ کہتی ہیں کہ حاملہ عورت کسی میت پر نہ جائے؛ کیوں کہ اس عورت پر یا اس کے پیدا ہونے والے بچہ پر اس میت کا سایہ ہوسکتا ہے۔ کیا شریعت میں ایسی کوئی بات  ثابت ہے یا نہیں؟

جواب

 

سوال میں ذکر کردہ بات کی شریعت میں  کوئی اصل نہیں، یہ بات عوام میں رائج غلط عقائد و رسومات میں سے ہے،اگر حاملہ عورت بھی میت کے گھر تعزیت کے لیے جانا چاہے تو پردے کے ساتھ جاسکتی ہے اور اگر گھر دور ہو تو محرم کے ساتھ جاسکتی ہے، میت کا سایہ ہونے اور عورت یا اس کے بچے پر میت کا  سایہ پڑنے کی  بات محض بدشگونی اور توہم پرستی ہے جس کا اسلام میں  کوئی تصور   نہیں ؛لہٰذا اس قسم کے غلط خیالات  سے بچنا چاہیے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه:عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (‌لا ‌عدوى ‌ولا طيرة، ولا هامة ولا صفر)."

(كتاب الطب، باب: لا هامة، ولا صفر، ج:5، ص:2171، ط: دار إبن كثير)

فیض القدیر میں ہے:

"إن كان الشؤم) ضد اليمن مصدر تشاءمت وتيمنت قال الطيبي: واوه همزة خففت فصارت واوا ثم غلب عليها التخفيف ولم ينطق بها مهموزة (في شيء) من الأشياء المحسوسة حاصلا (ففي الدار والمرأة والفرس) يعني إن كان للشؤم وجود في شيء يكون في هذه الأشياء فإنها أقبل الأشياء له لكن لا وجود له فيها فلا وجود له أصلا ذكره عياض أي إن كان في شيء يكره ويخاف عاقبته ففي هذه الثلاث قال الطيبي: وعليه فالشؤم محمول على الكراهة التي سببها ما في الأشياء من مخالفة الشرع أو للطبع."

(حرف الهمزة، ج:3، ج:23، ط:المكتبة التجارية الكبرى - مصر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100236

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں