بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہمبستری کے وقت بیوی کی والدہ کا تصور کرنے سے نکاح کا حکم


سوال

میرے شوہر ہمبستری کرتے وقت میری ماں کا تصورکرتےہیں ،کئی  دفعہ ہاتھ بھی لگایا ہے، مسائل تفصیل سے بیان کریں، اس سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں ؟

جواب

بیوی سے ہمبستری کے دوران بیوی کے علاوہ  کسی بھی دوسری عورت سے ہم بستری کرنے یا لذت اٹھانے کا تصور کرناشرعًا ناجائز اور انتہائی قبیح عمل ہے، کیوں کہ جس طرح کسی عورت کو کھلی آنکھوں لذت حاصل کرنے کی نیت سے دیکھنا ناجائز ہے،  اسی طرح کسی عورت کو تصور میں لاکر لذت حاصل کرنا بھی ناجائز ہے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ آنکھوں کا زنا دیکھنا (بد نظری) ہے، کانوں کا زنا سننا ہے، اور زبان کا زنا (فحش) گفتگو کرنا ہے، ہاتھوں کا زنا پکڑنا ہے ، پیروں کا زنا چلنا ہے اور دل تمنا کرتا اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ  اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔

البتہ بیوی سےہمبستری کے دوران بیوی کے علاوہ کسی بھی دوسری عورت سے ہم بستری کرنے یا لذت اٹھانے کا تصور کرنے کو  زنا  قرار نہیں دیا جاسکتا ہے جس  کے شرعی ثبوت کی صورت میں  کوڑے  لگانے یا سنگسار کرنے کی سزا مقرر ہے، اس  لیے اس عمل پر حقیقی زنا کے احکامات (جن میں حرمت مصاہرت بھی شامل ہے)  جاری نہیں ہوں گے۔

زیر نظر صورت میں سائلہ کے شوہر کا ہمبستری کرتے وقت سائلہ کی والدہ کا تصور کرنا شرعاً ناجائز ہے،لیکن صرف  اس عمل سے سائلہ اور اس کےشوہر کے درمیان حرمت مصاہر ت ثابت نہیں ہوگی(یعنی نکاح ختم نہیں ہوگا)،کیوں کہ صرف تصور کرنے پر حقیقی زنا کے احکامات جاری نہیں ہوتے ۔لیکن اس کے علاوہ  سائلہ کے بیان کے مطابق اگر واقعتاً سائلہ کے شوہر نے سائلہ کی والدہ کو ہاتھ بھی لگا یا ہے ،تو ایسی صورت میں  مندرجہ ذیل تمام شرائط  پائے جانے کی صورت میں سائلہ اور اس کے شوہر کے درمیان حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی۔

شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

  • چھونا بغیر کسی حائل کے ہو، یعنی درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو، یا  درمیان میں حائل کپڑا اس قدر باریک ہو   کہ اس سے جسم کی حرارت پہنچتی ہو۔ 
  •  چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت  پیدا ہو، مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ   اس کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے، اور اگر آلہ تناسل پہلے سے منتشر ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے، اور  بیمار  اور بوڑھے  مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا اور عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ  دل  میں  ہیجان  کی کیفیت پیدا ہو،اور دل کا ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں اضافہ ہوجائے۔
  •  شہوت چھونے کے ساتھ ملی ہوئی ہو ،  اگر چھوتے وقت شہوت پیدا نہ ہو، پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے۔
  • شہوت ختم ہونے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو، اگر انزال ہوگیا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
  •  عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو۔

ان تمام شرائط کی موجودگی میں چھونے سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی ،خواہ قصداً چھوا ہویابلاارادہ بھول کر یاغلطی سے یا کسی کے زبردستی کرنے پر(مکرہاً) چھوا ہو،ہر حال میں حرمت ثابت ہوجائے گی،یعنی سائلہ اور اس کے شوہر ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائیں گے،نیز مذکورہ حرمت حرمتِ مؤبدہ ہوتی ہے،لہذا اس کے بعد کسی صورت میں سائلہ اور اس کے شوہر کا نکاح دوبارہ نہیں ہوسکتا،اسی طرح حرمت مصاہرت ثابت ہونے کی صورت میں زوجین کا نکاح ختم نہیں ہوتا،بلکہ صرف فاسد ہوجاتاہے، ایسی صورت میں سائلہ  کے شوہر پر لازم ہوگا  کہ وہ سائلہ کوباقاعدہ زبان سے  طلاق دے کر علیحدہ کردے یا اگر وہ طلاق دینے پر راضی نہ ہو تو پھرسائلہ   کسی متعلقہ عدالت کے مسلمان جج  کے ذریعہ نکاح کو فوری طور پر فسخ کرائے ،اور اس کے بعد ہی سائلہ کے لیے عدت گذار کر کسی دوسری جگہ نکاح جائز ہوگا،اور تاخیر کی صورت میں سائلہ اپنے  شوہر سےمکمل  علیحدہ رہنے کی کوشش کرے ۔

اور اگرمندرجہ بالا شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو،تو حرمت مصاہرت کا حکم نہیں لگے گا،او رسائلہ  اپنے شوہر پر حرام نہیں ہوگی ،البتہ سائلہ  کے شوہر پر لازم ہےکہ وہ آئندہ کے لیے اس قسم کے افعال سے مکمل اجتناب کرے۔

مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله كتب على ابن آدم حظه من الزنا، أدرك ذلك لا محالة، فزنا العين النظر، وزنا اللسان المنطق، والنفس تمنى وتشتهي، والفرج يصدق ذلك، ويكذبه متفق عليه. وفي رواية لمسلم قال: كتب على ابن آدم نصيبه من الزنا مدرك ذلك لا محالة، العينان زناهما النظر، والأذنان زناهما الاستماع، واللسان زناه الكلام، واليد زناها البطش، والرجل زناها الخطا، والقلب يهوى ويتمنى، ويصدق ذلك الفرج، ويكذبه."

(کتاب الایمان،‌‌باب الإيمان بالقدر،ج:1،ص:32،رقم :86،ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے: 

"الثالث: ذكر بعض الشافعية أنه كما يحرم النظر لما لا يحل يحرم التفكر فيه لقوله تعالى - {ولا تتمنوا ما فضل الله به بعضكم على بعض} [النساء: 32]- فمنع من التمني كما منع من النظر، وذكر العلامة ابن حجر في التحفة أنه ليس منه ما لو وطئ حليلته متفكرا في محاسن أجنبية حتى خيل إليه أنه يطؤها، ونقل عن جماعة منهم الجلال السيوطي والتقي السبكي أنه يحل لحديث «إن الله تجاوز لأمتي ما حدثت به أنفسها» ولا يلزم من تخيله ذلك عزمه على الزنا بها، حتى يأثم إذا صمم على ذلك لو ظفر بها، وإنما اللازم فرض موطوءته تلك الحسناء، وقيل ينبغي كراهة ذلك ورد بأن الكراهة لا بد لها من دليل وقال ابن الحاج المالكي: إنه يحرم لأنه نوع من الزنا كما قال علماؤنا فيمن أخذ كوزا يشرب منه، فتصور بين عينيه أنه خمر فشربه أن ذلك الماء يصير حراما عليه اهـ ورد بأنه في غاية البعد ولا دليل عليه اهـ ملخصا ولم أر من تعرض للمسألة عندنا وإنما قال في الدرر: إذا شرب الماء وغيره من المباحات بلهو وطرب على هيئة الفسقة حرم اهـ والأقرب لقواعد مذهبنا عدم الحل، لأن تصور تلك الأجنبية بين يديه يطؤها فيه تصوير مباشرة المعصية على هيئتها، فهو نظير مسألة الشرب ثم رأيت صاحب تبيين المحارم من علمائنا نقل عبارة ابن الحاج المالكي، وأقرها."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس، ج: 6، ص: 370، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة (وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقا والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قلبه أو زيادته وفي الجوهرة: لا يشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتى هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي ابن كمال وغيره.

(قوله: والمنظور إلى فرجها) قيد بالفرج؛ لأن ظاهر الذخيرة وغيرها أنهم اتفقوا على أن النظر بشهوة إلى سائر أعضائها لا عبرة به ما عدا الفرج، وحينئذ فإطلاق الكنز في محل التقييد بحر."

(كتاب النكاح،فصل في المحرمات،ج:3،ص: 32،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم المسّ إنما یوجب حرمة المصاهرة إذا لم یکن بینهما ثوبٌ ، أما إذا کان بینهما ثوب فإن کان صفیقاً لا یجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك، وإن کان رقیقاً بحیث تصل حرارة الممسوس إلی یده تثبت، کذا في الذخیرة."

(كتاب النكاح،الباب الثالث في بيان المحرمات ج:1،ص:275،ط:دار الفکر )

وفیہ ایضاً:

"فلو جامع صغيرة لا تشتهى لا تثبت الحرمة، كذا في البحر الرائق. ولو كبرت المرأة حتى خرجت عن حد المشتهاة يوجب الحرمة؛ لأنها دخلت تحت الحرمة فلم تخرج بالكبر ولا كذلك الصغيرة، كذا في التبيين."

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات،ج:1،ص:275،ط:دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"ثم لا فرق في ثبوت الحرمة بالمس بين كونه عامدا أو ناسيا أو مكرها أو مخطئا، كذا في فتح القدير. أو نائما هكذا في معراج الدراية."

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات،ج:1،ص:274،ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة، والوطء بها لا يكون زنا، وفي الخانية إن النظر إلى فرج ابنته بشهوة يوجب حرمة امرأته وكذا لو فزعت فدخلت فراش أبيها عريانة فانتشر لها أبوها تحرم عليه أمها (وبنت) سنها (دون تسع ليست بمشتهاة) به يفتى.

(قوله: إلا بعد المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون كما في البزازية، وعبارة الحاوي إلا بعد تفريق القاضي أو بعد المتاركة. اهـ. وقد علمت أن النكاح لا يرتفع بل يفسد وقد صرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول، إن كانت مدخولا بها كتركتك أو خليت سبيلك، وأما غير المدخول بها فقيل تكون بالقول وبالترك على قصد عدم العود إليها.وقيل: لا تكون إلا بالقول فيهما، حتى لو تركها، ومضى على عدتها سنون لم يكن لها أن تتزوج بآخر فافهم."

(کتاب النکاح ،فصل فی المحرمات،ج:3،ص:37،ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144506100596

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں