میں نے سوال کیا تھاطلاق اور رجوع کے حوالے سے، جس پر مجھے جواب تو مل گیا، اور مجھ سے جواب میں پوچھا گیا ہے کہ ہم بستری ہوئی ہے یا نہیں؟ تو ہمارے درمیان کوئی ہم بستری ابھی تک نہیں ہوئی، پانچ مہینے ہوگئے ہیں کہ میری بیوی گھر نہیں آئی، اور اسی وجہ سے میں نے اس کو ڈرانے کے لیے ایک طلاق دی تھی،جس کو دو مہینے سے زیادہ ہوگئے ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں اگر زوجین کے درمیان نکاح کے بعد ایک دفعہ بھی ہم بستری ہوئی ہے، تو سائل کا ایک طلاق دینے کے چار دن بعد یہ لکھ کر کہ’’میں رجوع کر رہا ہوں‘‘ میسج کرنے سےرجوع ہو چکا ہے، اگر سائل نے نکاح کے بعد ایک دفعہ بھی ہم بستری نہیں کی، اور خلوتِ صحیحہ بھی نہیں ہوئی (یعنی نکاح کے بعد طلاق دینے سے پہلے دونوں تنہائی میں نہیں ملے) تو رجوع نہیں ہوا، بلکہ اس کی بیوی ایک طلاق سے بائنہ ہو گئی ہے، اب رجوع نہیں ہو سکتا، تا ہم از سرے نو نئے مہر کے ساتھ نئے گواہوں کی موجودگی میں نکاح کیا جا سکتا ہے، اور اس نکاح کے بعد سائل کو صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"(وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة (و) لذا (لم تقع الثانية)."
(کتاب الطلاق، باب طلاق الغیر المدخول بہا، ج:3، ص:286، ط:ایچ ایم سعید)
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"(هي استدامة الملك القائم)بلا عوض ما دامت (في العدة بنحو رجعتك) أي عدة الدخول حقيقة؛إذ لا رجعة في عدة الخلوة ابن كمال."
(کتاب الطلاق، باب الرجعۃ، ج:3، ص:397، ط:ایچ ایم سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144309100023
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن