بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جو مرد ایک دو دفعہ ہم بستری کرلینے کے بعد بیوی کی خواہش پوری کرنے پر قادر نہ ہو اس کا کیا حکم ہے؟


سوال

میری شادی کو ساڑھے تین سال ہوگئے ہیں،میرے شوہر کو ازدواجی تعلق قائم کرنے میں کمزور ی ہے ،شادی کے شروع سے ہی وہ دخول نہیں کر پاتے،دو چار دفعہ ہو بھی گیا تو فوراً انزال ہو جاتاہے ، اب تو وہ کوشش بھی نہیں کرتے، کپڑوں سمیت ہی جسم رگڑ کر لیک ہو جاتے ہیں ،اس سے انہیں تو لذت ملتی ہے،مگر میری تکلیف بڑھ جاتی ہے،میں خود لذّتی کرتی ہوں یا پھر یہ ہاتھوں سے رگڑ کر مجھے فارغ کرتے ہیں، لیکن پھر بھی لذت نہیں ملتی اور میں مزید تکلیف کا شکا ر ہوجاتی ہوں،ان کو ڈاکٹر نےآپریشن کا بتایا مگر انہوں نے نہیں کروایا،اوپر سے ان کے بقول عورت کی یہ ضرورت نہیں ہے،مجھے اپنے شوہر سے محبت ہے، میں ساتھ رہنا بھی چاہتی ہوں، مگر شدید تکلیف کا شکار رہتی ہوں،ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

جواب

واضح رہےکہ جس طرح جنسی تسکین اور لذت حاصل کرنامرد کی طبیعت اور ضرورت میں داخل ہے،اسی طرح یہ عورت کی فطرت اور طبیعت میں بھی داخل ہے،اس لیے شوہرکا یہ دعویٰ کرناکہ ’’یہ عمل عورت کی ضرورت میں داخل نہیں ‘‘درست نہیں ہے ۔

اس لیےزیرِ نظرمسئلہ میں سائلہ کے شوہر کے لیے تو حکم یہ ہے کہ اگران میں اپنی کی خواہش پوری کرنے کی طاقت نہیں ہے،جس کی وجہ سے بیوی سخت ذہنی اذیت کااور گناہوں کا شکار ہے،تو ان پر لازم ہے کہ طبیب کے مشورےکے مطابق اپناعلاج کروائیں،بصورتِ دیگر اپنی بیوی کو طلاق دے کراپنی زوجیت سے علیحدہ کردیں،تاکہ ان کی بیوی عفت اور پاکدامنی کے ساتھ اپنی بقیہ زندگی گزارسکے۔

دوسری طرف سائلہ اگر شوہر کے ساتھ ہی رہناچاہتی ہے،تو انہیں چاہیے کہ یاتو شوہر کے علاج معالجے میں ان کا ساتھ دیں اور ان کو علاج پر جتنا ہوسکے مجبور کریں،بصورتِ دیگر یعنی اگر علاج معالجے سے کوئی افاقہ نہ ہو،یا پھر شوہر علاج پرراضی  ہی نہ ہو،تو گناہوں میں مبتلاہوئےبغیرصبر کے ساتھ زندگی گزاریں۔

اور اگر گناہوں میں مبتلاہونے کاشدید اندیشہ ہوتوچوں کہ سائلہ کے بیان کے مطابق دوچار دفعہ ہم بستری ہوچکی ہے،اس لیےسائلہ کو عدالت سے نکاح فسخ کرانے کا اختیارتو حاصل نہیں ہے،البتہ ان کو یہ اختیار ضرور حاصل ہےکہ شوہر سےیاتو طلاق کا مطالبہ کرکے طلاق لےلےاوراگر شوہر  راضی نہ ہوتو کسی طرح ان کو خلع پر راضی کرکے علیحدگی اختیار کرلے۔

"رد المحتار على الدر المختار"میں ہے:

"(لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب. ويسقط حقها بمرة ويجب ديانة أحيانا ولا يبلغ الإيلاء إلا برضاها، ويؤمر المتعبد بصحبتها أحيانا.

(قوله ويسقط حقها بمرة) قال في الفتح: واعلم أن ترك جماعها مطلقا لا يحل له، صرح أصحابنا بأن جماعها أحيانا واجب ديانة، لكن لا يدخل تحت القضاء والإلزام إلا الوطأة الأولى ولم يقدروا فيه مدة.ويجب أن لا يبلغ به مدة الإيلاء إلا برضاها وطيب نفسها به. اهـ. قال في النهر: في هذا الكلام تصريح بأن الجماع بعد المرة حقه لا حقها اهـ. قلت: فيه نظر بل هو حقه وحقها أيضا، لما علمت من أنه واجب ديانة."

(ص:٢٠٢،ج:٣،کتاب النکاح،باب القسم بین الزوجات،ط:ایج ایم سعید)

وفيه ايضا:

"(وللمرأة أن تطالبه بالوطء) لتعلق حقها به (وعليها أن تمنعه من الإستمتاع حتى يكفر وعلى القاضي إلزامه به) بالتكفير ‌دفعا ‌للضرر ‌عنها بحبس، أو ضرب إلى أن يكفر، أو يطلق.

(قوله: وعلى القاضي إلزامه به) اعترض بأنه لا فائدة للإجبار على التكفير إلا الوطء، والوطء لا يقضى به عليه إلا مرة واحدة في العمر كما مر في القسم، وهذا لو صار عنينا بعدما وطئها مرة لا يؤجل."

(ص:٤٦٩،ج:٣،كتاب  الظهار،ط:ايج ايم سعيد)

"الفقه الإسلامي وأدلته"میں ہے:

"قال الحنفية: إذا جن الرجل أو أصبح عنينا بعد الزواج، وكان قد دخل بالمرأة، ولو مرة واحدة، لا يحق لها طلب الفسخ، لسقوط حقها بالمرة الواحدة قضاء، وما زاد عليه فهو مستحق ديانة لا قضاء."

(ص:٧٠٥٥،ج:٩،القسم السادس،الباب الثاني،الفصل الثالث،ط:دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101717

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں