بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حمل ضائع کرنے سے متعلق ایک اصول


سوال

ایک عورت کا  آ پریشن کے ذریعہ بچہ پیدا ہوا  ہے، اس کے تین ماہ بعد دوبارہ حاملہ ہوگئی ،  جب کہ اس کی صحت اس کی اجازت نہیں دیتی ہے تو اس صورت میں اس حمل کو ضائع کیا جا سکتا ہے؟

جواب

حمل ضائع کرنے سے متعلق ایک اصول ذہن نشین کرلیجیے کہ اگر  حمل  چار  ماہ  سے  کم کا ہو  اور  دین دار  اور  ماہر ڈاکٹر  یہ   کہہ دے کہ بچہ کی پیدائش کی وجہ سے  ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے یا ماں کی صحت اس حمل کاتحمل نہیں کرپاۓ گی  تو ان  جیسےاعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے    پہلے  (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی،  چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاط حمل جائزنہیں ہے۔

لہذا اگر مذکورہ خاتون کا حمل چار ماہ سے کم کا ہے اور مذکورہ اعذار متحقق ہیں تو ایسی صورت میں حمل ضائع کرنے کی گنجائش ہوگی۔

(الموسوعة الفقهیة الکویتیة ۳۰/ ۲۸۵):

"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لاتأثم إثم القتل".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200457

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں