کیا حمل ضائع ہو جانے سے متوفی عنہا کی عدت پوری ہو جائے گی یا ازسر نو شمار کرنا ہوگی؟ مطلقہ کی عدت کی بھی وضاحت فرما دیں!
معتدہ کا حمل اگر چار ماہ سے پہلے ضائع ہوجائے تو حمل ضائع ہونے سے اس کی عدت ختم نہیں ہوگی بلکہ اسے اپنی عدت پوری کرنی ہوگی یعنی عدتِ طلاق ہو تو تین ماہواری اور عدتِ وفات ہو تو چار مہینے اور دس دن۔ اور اگر معتدہ کا حمل چار ماہ کے بعد ضائع ہو تو ایسی صورت میں اس کی عدت ختم ہوجائے گی چاہے عدتِ طلاق ہو یا عدتِ وفات۔
فتاوی مفتی محمود میں ہے :
اگر اس بچے کے بچھ اعضاء ظاہر ہوچکے ہیں اور اس کے بعد ساقط کیا گیا پھر تو عدت گزر جاتی ہے ورنہ نہیں۔
(ج۷ / ص۳۷۱)
الدرالمختار مع الشامية، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیره، ، کراچی ۶/ ۴۲۹:
"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه کالشعر والظفر ونحوهما لایجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز … امرأة مرضعة ظهربها حبل وانقطع لبنها، وتخاف علی ولدها الهلاک، ولیس لأبي هذا الولد سعة حتی یستأجر الظئر یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام نطفة أو مضغة أو علقة لم یخلق له عضو وخلقه لایستبین إلا بعد مائة وعشرین یوماً أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً، کذا في خزانة المفتیین، وهکذا في فتاوی قاضي خان". (الهندیة، کتاب الکراهیة، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات وفیه العزل وإسقاط الولد، قدیم زکریا دیوبند ۵/ ۳۵۶، جدید زکریا دیوبند ۵/ ۴۱۱-۴۱۲)
فتوی نمبر : 144109200952
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن