بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حمل روکنے کے لیے ادویات استعمال کرنے کا حکم


سوال

مانعِ حمل ادویات کے استعمال کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں اولاد کی کثرت پسندیدہ ہے،احادیث مبارکہ میں بھی زیادہ بچے جننےوالی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں ضرورت کی حالت کےعلاوہ حمل کو روکنےکی کوئی بھی تدبیر اختیار کرنا مکروہ ہے،تاہم اگر ماہر طبیب یہ مشورہ دے کہ فی الحال حمل سے عورت کی جان کوخطرہ ہوسکتا ہے،یا دودھ پلانے والی عورت کے دودھ میں خرابی پیدا ہوکر دودھ پیتے بچے  کو نقصان ہوسکتا ہےیا کوئی اور معقول وجہ بیان کرے،تو اس صورت میں عارضی مانعِ حمل تدبیر خواہ وہ ادویات کی صورت میں ہو یا کسی اور مانع کی صورت میں ہو جائز ہے،تاہم عورت کی تولیدی صلاحیت کو بالکلیہ ختم کر کے اس کو بانجھ کردینا جائز نہیں ہے۔

"مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح"میں ہے:

"وعن معقل بن يسار رضي الله عنه  قال: قال رسول الله  صلى الله عليه وسلم : تزوجوا الودود الولود، فإني مكاثر بكم الأمم...وقيد بهذين لأن الولود إذا لم تكن ودودا لم يرغب الزوج فيها، والودود إذا لم تكن ولودا لم يحصل المطلوب وهو تكثير الأمة بكثرة التوالد...أي: مفاخر بسببكم سائر الأمم لكثرة أتباعي."

(ص:٢٠٤٧،ج:٥،کتاب النکاح،ط:دار الفکر،بیروت)

"رد المحتار علی الدر المختار"میں ہے:

"(و) جاز (خصاء البهائم) حتى الهرة، وأما خصاء الآدمي فحرام."

(ص:٣٨٨،ج:٦،کتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،ط:ایج ایم سعید)

"البحر الرائق"میں ہے:

"والإذن في ‌العزل عن الحرة لها ولا يباح بغيره لأنه حقها، وفي الخانية: ذكر في الكتاب أنه لا يباح بغير إذنها وقالوا في زماننا يباح لسوء الزمان قال في فتح القدير بعده فليعتبر مثله من الأعذار مسقطا لإذنها وأفاد وضع المسألة أن ‌العزل جائز بالإذن وهذا هو الصحيح عند عامة العلماء."

(ص:٢١٤،ج:٣،كتاب النكاح،باب نكاح الرقيق،ط:دار الكتاب الإسلامي)

"الفقه الإسلامي وأدلته"میں ہے:

"وبناء عليه يجوز استعمال موانع الحمل الحديثة كالحبوب وغيرها لفترة مؤقتة، دون أن يترتب عليه استئصال إمكان الحمل، وصلاحية الإنجاب، قال الزركشي: يجوز استعمال الدواء لمنع الحبل في وقت دون وقت كالعزل، ولايجوز التداوي لمنع الحبل بالكلية. أو ربط عروق المبايض إذا ترتب عليه امتناع الحمل في المستقبل، والعبرة في ذلك لغلبة الظن."

(ص:٢٦٤٥،ج:٤،‌‌‌‌‌‌القسم الأول العبادات،الباب السابع الحظر والإباحة،المبحث الرابع،ط:دار الفكر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144501101691

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں