بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حمل کے دوران خون کاحکم


سوال

 ایک حاملہ عورت کو حمل ٹھہرنے کے 30 دن بعد خون کے دوقطرے نظرآئے، پھر 4دن کےبعد مزیدکچھ خون نظرآیا،پھر5 دن بعد کافی زیادہ خون نظرآیا، یہ خون 12 دن تک اس طرح جاری رہاکہ درمیان میں کچھ وقت کے لیے رک جاتا اور پھر جاری ہوجاتاتھا، پھر 17 دن تک خون مکمل رک گیا، اس کے بعد دوبارہ خون جاری ہوا یہاں تک کہ اسقاطِ حمل ہوجانے کی وجہ سے پانچوں روز ہسپتال میں جاکر رحم صاف کرناپڑا، اسقاط میں صرف خون کا لوتھڑانکلا اسقاط کے بعد 10 دن تک خون جاری رہا، حمل سے پہلےاس عورت کی عادت 18دن طہر اور 6 دن حیض کی تھی،اب معلوم یہ کرناہےکہ: ١. حمل کے زمانہ میں جب 30 دن کے بعد خون نظرآیاتو کیا اس کو استحاضہ کہیں گے؟اور جب تک اسقاط نہ ہو اس وقت تک جتناخون آئے سب کو استحاضہ قرار دے کر کیا وہ عورت نماز پڑھتی رہے گی؟ ٢. اسقاط میں جب صرف خون کا لوتھڑا نکلا تو معلوم ہوگیا کہ شروع سے حمل تھا ہی نہیں، لہذا جب سے خون شروع ہوا اس وقت سے قاعدے کےمطابق حیض اور طہر کے ایام طے کرنے ہوں گے، تو اس طرح طے کرنے میں 30 دن کے بعد جب سے خون نظر آنا شروع ہوا اس وقت سے طے کریں گے یا اسقاط سے 4 دن پہلے جب خون آنا شروع ہوا اس وقت سےطے کریں گے؟ (مطلب یہ ہے کہ درمیان میں جو 17 دن تک خون رکارہا، یہ وقفہ ماقبل اور مابعد کے خون کے لیے فاصل بنے گایا نہیں؟ اگر فاصل بنتاہے تو ابتداء سے لےکر ماقبل کے تمام خون استحاضہ کہلائیں گے۔ اور اگر فاصل نہیں بنتاتو ابتداءسے لےکر حیض اور طہر کے ایام طے کرنے ہوں گے۔) دراصل یہاں دواصولوں میں تعارض نظرآرہاہے۔ ایک یہ کہ 15 دن کا وقفہ ماقبل اور مابعد کے خون کےلیے فاصل ہے۔ دوسرایہ کہ اسقاطِ حمل میں اگر بچہ کا کوئی عضوموجود نہ ہوتو ابتداء سے ہی حمل کو کالعدم سمجھاجائےگا، پہلے اصول کا تقاضہ یہ ہےکہ 17 دن وقفہ سے قبل کاخون استحاضہ ہو، اور دوسرے اصول کا تقاضہ یہ ہےکہ 30 دن کے بعد جب سے خون آیا اسی وقت سے عادت کے موافق حیض اور طہر کے ایام کا حساب لگایا جائے۔تو اس مسئلہ میں کون سا اصول جاری ہوگا؟ ٣. اگر دوسرا اصول جاری ہوتو خون کی ابتداء سے لےکر اسقاط کے بعد 10 دن خون جاری رہنے تک حیض کے کتنے دن ، استحاضہ کے کتنے دن اور طہر کے کتنے دن ہوں گے؟ 

جواب

واضح رہے کہ  حمل کے زمانے میں حیض نہیں آتا ،مذکورہ صورت میں عورت نے جو تھوڑا تھوڑا خون دیکھا ہے وہ استحاضہ (بیماری ) کی وجہ سے  ہے،اور استحاضہ کا حکم یہ ہے کہ     ہر نماز کا وقت داخل ہو نے پر وضو کرے گی ،اور اس وقت کے ختم ہو نے تک اسی وضو  سے  نماز ، اورتلاوت  وغیرہ کر سکتی ہے ،بشرطیہ کہ اس کے علاوہ کوئی  ناقض وضو نہ ہو ،اور وقت ختم ہو نے کے بعد پھر دوبارہ وضو کرے گی ،اسی طرح   اسقا ط کے بعد جو دس دن خون آتا رہا  تو یہ دیکھا جائے گا کہ طہر کے ایام (کم ازکم پندرہ دن )گزر چکے ہیں تو یہ حیض شمار ہو گا ، اور اگر کم از کم پندرہ دن نہیں گزرے تو پھر یہ  استحاضہ شمار ہو گا ۔   

فتاوی شامی میں ہے : 

"(ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولايستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوماً (ولد) حكماً (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء  فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثاً وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة".

 (کتاب الطھارۃ،باب الحیض ،1/ 302،سعید)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(ودم استحاضة) حكمه (كرعاف دائم) وقتا كاملا (لا يمنع صوما وصلاة) ولو نفلا (وجماعا) لحديث «توضئي وصلي وإن قطر الدم على الحصير."

(کتاب الطھارۃ ، باب الحیض ،298/1، سعيد)

تنویر الابصار مع الد المختار میں ہے :

"(والناقص) عن أقلہ (والزائد) علی أکثرہ أو أکثرالنفاس أوعلی العادة وجاوز أکثرہما. (وما تراہ) صغیرة دون تسع علی المعتمد وآیسة علی ظاہر المذہب (حامل) ولو قبل خروج أکثر الولد (استحاضة)".

(کتاب الطھارۃ،باب الحیض،285/1،سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144410101568

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں