بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حمل کے دوران ہم بستری کا حکم


سوال

اگرکوئی عورت حاملہ ہو اور شوہر بستر پر بلائے اور بیوی انکار کرے یا کہے کہ میرے میں طاقت نہیں ،تو شرعاً اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

حالتِ حمل میں کسی بھی وقت بیوی سے ہم بستری کرنا شرعاً جائز ہے، بلکہ فقہاء نے لکھا ہے کہ حالتِ حمل میں ہم بستری کرنے سے بچے کے بال بڑھتے ہیں اور اس کی بینائی اور سماعت بھی تیز ہوتی ہے، البتہ اگر کوئی دِین دار و ماہر طبیب یا ڈاکٹر کسی عذر کی بنا پر احتیاط کا مشورہ دے  تو اس کی بات پر عمل کرنا چاہیے، اسی طرح اگر واقعتًا بیوی کو اس سے ضرر لاحق ہوتا ہو تو اس کا لحاظ رکھنا چاہیے۔

صورتِ  مسئولہ میں اگر عورت کا انکار کسی عذر یا تکلیف کی بنا پر ہوتو شوہرکو بیوی کی رعایت رکھنی چاہیے، اور اگر کسی طبیب کی جانب سے ممانعت  نہ ہو اور کسی تکلیف کا عذر بھی نہ ہوتو بیوی کو شوہر کا کہنا ماننا چاہیے، بلاوجہ شوہر کے مطالبے سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔

" الدر المختار مع ردالمحتار" میں ہے:

"لئلا يسقي ماءہ زرع غيره؛ إذ الشعر ينبت منه.

(قوله: إذ الشعر ينبت منه) المراد ازدياد نبات الشعر، لا أصل نباته، ولذا قال في التبيين والكافي : لأن به يزداد سمعه وبصره حدةً كما جاء في الخبر. اهـ.
وهذه حكمته، وإلا فالمراد المنع من الوطء ؛ لما في الفتح قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «لايحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسقي ماءہ  زرع غيره». يعني إتيان الحبلى. رواه أبو داود والترمذي وقال:حديث حسن. اهـ. شرنبلالية".

(الدر المختار مع رد المحتار (3/ 49) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200898

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں