بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حمل کی جنس معلوم کرنے کا حکم


سوال

کیا بچے کی پیدائش سے پہلے الٹراساؤنڈ کے ذریعے بچے کی جنس معلوم کرنا جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی جنس کا حقیقی اور یقینی علم تو صرف  اللہ تعالیٰ ہی  کو ہے، باقی  اگر کسی کو آلات اور قرائن کے ذریعے مخفی باتیں معلوم ہوںِ مثلاً: الٹراساؤنڈ کی مدد سے  ماں کے پیٹ میں موجود بچے  کی جنس کا علم ہو بھی جائے، تو اس کو علمِ غیب نہیں کہا جائے گا، کیوں کہ علمِ غیب  میں آلات اور اسبابِ ظاہریہ کا  کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔

اس لیے  بچے کی پیدائش سے پہلے لٹراساؤنڈ کے ذریعے اس کی جنس معلوم کرنا اور اس کی کھوج میں پڑنا اچھی بات نہیں ہے، بلکہ اگر الٹراساؤنڈ کے لیے ستر کھولنا پڑتا ہو اور  صرف اسی غرض سے الٹراساؤنڈ کرایا جائے، تو یہ جائز بھی نہیں ہے، البتہ اگر علاج وغیرہ کے لیے الٹراساؤنڈ کرانے کی ضرورت پیش آجائے اور اس دوران بچے کی جنس بھی معلوم ہوجائے، تو اس میں  کوئی حرج نہیں، تاہم یہ بات واضح رہے کہ الٹراساؤنڈ کے ذریعہ بچے کی جنس کا معلوم ہوجانا یہ بھی ظنی ہے، حقیقی اور یقینی علم صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کو حاصل ہے۔

تفسیر قرطبی میں ہے:

"إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ‌ما ‌في ‌الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبير (34)

زعم الفراء أن هذا معنى النفي، أي ما يعلمه أحد إلا الله تعالى. قال أبو جعفر النحاس: وإنما صار فيه معنى النفي والإيجاب بتوقيف الرسول صلى الله عليه وسلم على ذلك، لأنه صلى الله عليه وسلم قال في قوله الله عز وجل:" وعنده مفاتح الغيب لا يعلمها إلا هو" [الانعام: 59]: (إنها هذه): قلت: قد ذكرنا في سورة" الأنعام" «1» حديث ابن عمر في هذا، خرجه البخاري. وفي حديث جبريل عليه السلام قال: (أخبرني عن الساعة؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:) ما المسئول عنها بأعلم من السائل، هن خمس لا يعلمهن إلا الله تعالى: إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ‌ما ‌في ‌الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا) قال: (صدقت). لفظ أبي داود الطيالسي. وقال عبد الله بن مسعود: كل شي أوتي نبيكم صلى الله عليه وسلم غير خمس:" إن الله عنده علم الساعة"، الآية إلى آخرها. وقال ابن عباس: هذه الخمسة لا يعلمها إلا الله تعالى، ولا يعلمها ملك مقرب ولا نبي مرسل، فمن ادعى أنه يعلم شيئا من هذه فقد كفر بالقرآن، لأنه خالفه. ثم إن الأنبياء يعلمون كثيرا من الغيب بتعريف الله تعالى إياهم. والمراد إبطال كون الكهنة والمنجمين ومن يستسقي بالأنواء «2» وقد يعرف بطول التجارب أشياء من ذكورة الحمل وأنوثته إلى غير ذلك، حسبما تقدم ذكره في الأنعام «3». وقد تختلف التجربة وتنكسر العادة ويبقى العلم لله تعالى وحده."

(سورة لقمان، ج:14، ص:82، ط:دار الكتب المصرية)

بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:

"(ويجوز للطبيب أن ينظر إلى موضع المرض منها) ش: أي من المرأة م: (للضرورة) ش: لأن للضرورة تأثير في إباحة المحرمات بدليل إباحة الميتة والخمر عند الضرورة وخشية التلف م: (وينبغي أن يعلم المرأة مداواتها؛ لأن ‌نظر ‌الجنس ‌إلى ‌الجنس أسهل فإن لم يقدروا يستر كل عضو منها سوى موضع المرض ثم ينظر ويغض بصره ما استطاع؛ لأن ما ثبت بالضرورة يتقدر بقدرها) ش: أي يتعذر بالضرورة أراد بأن يكون بقدر الضرورة ولا يتجاوز عنها لاندفاع الحاجة بقدرها."

(كتاب الكراهية، ج:12، ص:138، ط:دار الكتب العلمية)

تفسیر کبیر میں ہے:

"والثاني: وهو قول جمهور المفسرين أن الغيب هو الذي يكون غائبا عن الحاسة."

(سورة البقرة، ج:2، ص:273، ط:دار إحياء التراث العربي)

تفسير أبي السعود ميں ہے:

"فهو ماغاب عن الحس والعقلِ غيبة كاملة بحيث لايدرك بواحد منهما ابتداء بطريق البداهة."

(سورة البقرة، ج:1، ص:30، ط:دار إحياء التراث العربي)

روح المعانی میں ہے:

"والغيب في الأصل مصدر غابت الشمس وغيرها إذا استترت عن العين، واستعمل في الشيء الغائب الذي لم تنصب له قرينة وكون ذلك غيبا باعتباره بالناس ونحوهم لا بالله عز وجل فإنه سبحانه لا يغيب عنه تعالى شيء."

(سورة النمل، ج:10، ص:222، ط:دار الكتب العلمية)

مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ تفسیر معارف القرآن میں ارشاد فرماتے ہیں:

"اکوانِ غیبیہ کا علم کلی اور تفصیلی اور محیط اللہ رب العزۃ کے ساتھ مخصوص ہے اور اگر کسی بنی کو بذریعہ وحی کے اور کسی ولی کو بذریعہ الہام کے اور کسی مرد صالح کو بذریعہ خواب کے کسی کی موت اور حیات کا کچھ علم ہوجائے، تو وہ ایک علم جزئی اور ناتمام ہے، جس کو خدا تعالیٰ کے علم محیط کے ساتھ وہ نسبت بھی نہیں جو قطرہ کو دریا کے ساتھ ہو اور بعض اوقات کافروں کو بھی بذریعہ خواب یا کشف کچھ امور دکھلا دیے جاتے ہیں، جو واقع کےمطابق ہوتے ہیںِ جیساکہ دجال کی حدیث میں اس قسم کے امور کا ذکر آیا ہے، تو وہ بطورِ استدراج ہے نہ کہ بطریق کرامت۔"

(سورۃ لقمان، ج:6، ص:198، ط:مکتبۃ المعارف)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402100485

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں