میری بیوی کا ۹ واں مہینہ ہے کیا اس میں روزہ رکھ سکتی ہیں؟ڈاکٹر سے پوچھا تو انہوں نے منع کیا ہے،بعد میں قضا کرنے کا کہا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر ماہر دین دار ڈاکٹر نے سائل کی اہلیہ کو یہ بتایا ہے کہ حمل کی حالت میں روزہ رکھنااس کے لیے یا بچے کے لیےنقصان دہ ہےتو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہے،بعد میں ان روزوں کی صرف قضا لازم ہوگی۔
"عن أنس بن مالك، قال: رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم للحبلى التي تخاف على نفسها أن تفطر، وللمرضع التي تخاف على ولدها."
(اخرجہ ابن ماجہ فی سننہ فی باب ما جاء فی الافطار للحامل والمرضع (2/ 576) برقم (1668)،ط. دار الرسالۃ العالميۃ)
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
قوله: "ويجوز الفطر لحامل" هي التي في بطنها حمل بفتح الحاء أي ولد."
( كتاب الصوم ، باب ما يفسد الصوم ويوجب القضاء، فصل فی العوارض:684:ط :دار الكتب العلميۃ بيروت)
درمختارمع ردالمحتار میں ہے:
"أو حامل أو مرضع خافت بغلبة الظن على نفسها أو ولدها(قوله أو حامل) هي المرأة التي في بطنها حمل بفتح الحاء أي ولد."
(کتاب الصوم ،فصل فی العوارض ،:422/2:ط:ایچ ایم سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144308102087
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن