بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

حمل کی دھڑکن بند ہوجانے کی وجہ سے اسقاط کرنا


سوال

اگر بچے کی حمل کے دوران دل کی دھڑکن نہیں ہو تو کیا حمل جائز ہے ساقط کرنا؟

جواب

واضح رہے کہ اگر حمل سے عورت کی جان کو خطرہ  ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو  اور کوئی  تجربہ کار مستند مسلمان ڈاکٹر اس کی تصدیق کرتا ہے  تو اس جیسے اعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے   پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی، اور چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاطِ حمل جائزنہیں ہے، اور  شدید عذر نہ ہو تو پھر  حمل کو ساقط کرنا   چار ماہ سے پہلے  بھی  جائز نہیں، بلکہ بڑا گناہ ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر بچہ میں روح پڑ جانے کے بعد الٹرا ساؤنڈ  یا دیگر ذرائع وغیرہ سے معلوم ہوجائے کہ بچہ کی دل کی دھڑکن بند ہوگئی ہو، تو محض اس وجہ سے اس حمل کا اسقاط جائز  نہیں، بلکہ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائے، اس لئے کہ ایک تو الٹرا ساؤنڈ وغیرہ اسباب ظنیہ ہیں، حقیقت اللہ کو معلوم ہوتی ہے، اور پھر اللہ تعالیٰ قادر مطلق ذات ہیں، ان کیلئے کچھ مشکل نہیں، ممکن ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کو زندگی نصیب فرما دیں، ورنہ خدانخواستہ  بچہ  اگرمردہ پیدا ہوا، تو اس کو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ مان کر صبر کر لیا جائے۔

الدر المختار میں ہے:

"ويكره أن تسقى لإسقاط حملها ... وجاز لعذر حيث لا يتصور."

الرد المحتار میں ہے:

"(قوله ويكره إلخ) أي مطلقا قبل التصور وبعده على ما اختاره في الخانية كما قدمناه قبيل الاستبراء وقال إلا أنها لا تأثم إثم القتل (قوله وجاز لعذر) كالمرضعة إذا ظهر بها الحبل وانقطع لبنها وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاك الولد قالوا يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام الحمل مضغة أو علقة ولم يخلق له عضو وقدروا تلك المدة بمائة وعشرين يوما، وجاز لأنه ليس بآدمي وفيه صيانة الآدمي خانية (قوله حيث لا يتصور) قيد لقوله: وجاز لعذر والتصور كما في القنية أن يظهر له شعر أو أصبع أو رجل أو نحو ذلك ."

(6 / 429،  کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیره،ط: سعید) 

ہندیہ میں ہے:

"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز وأما في زماننا يجوز على كل حال وعليه الفتوى كذا في جواهر الأخلاطي.

وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال أما في الحرة فلا يجوز قولا واحدا وأما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع كذا في التتارخانية."

( 5 / 356، کتاب الکراهیة، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات وفیه العزل وإسقاط الولد،ط: دار الفکر)

موسوعہ فقہیۃ کویتیۃ میں ہے:

"«وذهب الحنفية إلى إباحة إسقاط العلقة حيث إنهم يقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم يتخلق منه شيء، ولن يتم التخلق إلا بعد مائة وعشرين يوما، قال ابن عابدين: وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج، وكان الفقيه علي بن موسى الحنفي يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة، فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل»."

(الموسوعة الفقهية الكويتية،حرف العين، كلمة: ‌‌علقة،الأحكام المتعلقة بالعلقة،‌‌إسقاط العلقة،30/ 285، ط:  الكويت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102062

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں