سات ہفتے کا حمل تھا پھر اچانک بچے کی نشو نما رُک گئی ، ڈاکٹر نے چیک اپ کر کے حفاظتی ادویات دے دیں، مگر اگلے ایک ہفتے میں ہی پھر سے درد اُٹھا اور حمل ضائع ہونے لگا، ایک سال ہوگیا اس مسئلہ کو اب کچھ لوگ یہ کہتے کے وہ حمل اولاد شمار ہوگا اورشرعاً اُس کا نام رکھ لینا چاہئے یاکہ نہیں؟
واضح رہے کہ اگر حمل اپنےتمام اعضاء کی سلامتی(مثلاًہاتھ پیر وغیرہ)کےساتھ ظاہر ہوگیا ہو اور پیدائش کےوقت زندگی کی کوئی علامت بھی پائی جائے مثلاًرونے کی آواز نکالی ہو وغیرہ،تو یہ حمل بچہ شمار ہوگا،اگر اس حمل کے اعضاء وغیرہ کچھ ظاہر نہ ہوئے ہوں تویہ حمل بچہ شمار نہیں ہوگا،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سات ہفتہ کا حمل ضائع ہوا ہےتویہ حمل بچہ شمار نہیں ہوگا اور اس کانام رکھنابھی شرعاًلازمی نہیں ہے۔
سنن ابن ماجہ میں ہے:
"عن جابر بن عبد الله، والمسور بن مخرمة قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:لا يرث الصبي حتى يستهل صارخا، قال: واستهلاله أن يبكي ويصيح أو يعطس."
(كتاب الفرائض، باب إذا استهل المولود ورث، ج:2، ص:918، ط:دار إحياء الكتب العربية)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(ومن ولد فمات يغسل ويصلى عليه) ويرث ويورث ويسمى (إن استهل) بالبناء للفاعل: أي وجد منه ما يدل على حياته بعد خروج أكثره، حتى لو خرج رأسه فقط وهو يصيح فذبحه رجل فعليه الغرة."
(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:227، ط: سعيد)
درمختار میں ہے:
"(ومن ولد فمات يغسل ويصلى عليه) ويرث ويورث ويسمى (إن استهل)."
(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ص:121، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144408102636
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن