بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حمل کے ضایع ہونے کی وجہ سے عورت کے دودھ کا حکم


سوال

میرا بچہ سات مہینے کا تھا،اتنے میں ایک اور حمل پیٹ میں تھا،وہ حمل چار ماہ تک رہا،اس کے بعد گرگیا،میں پہلے بچے کا دودھ چھڑواچکی تھی،اب اس کے بعد دوبارہ دودھ آنے لگا،میرے شوہر نے پہلےوالے بچے کو دودھ پلانے کا کہا،کسی نے کہا یہ دوسرے بچے کا دودھ ہےیہ پہلے بچے پر مکروہ ہے اس بات کا کیاحکم ہے؟کیا دوسرے بچے کا دودھ پہلے دوسال سے کم بچے پر مکروہ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شرعی نقطہ نظرسے بچہ اوربچی دونوں کی مدت رضاعت (یعنی دودھ پلانے کی مدت) دوسال ہے، دوسال کی عمرہونےپر بچے/ بچی  کا دودھ چھڑا دینا شرعاًضروری ہوتا ہے ، لہذا صورتِ مسئولہ میں عورت کا اپنے دوسال سے کم عمر والے بچے کو   دودھ پلانے میں کسی قسم کی کوئی کراہت نہیں،وہ اپنے بچے کو مدتِ رضاعت پوری ہونے  تک دودھ پلاسکتی ہے۔

"ردالمحتار"میں ہے:

"باب الرضاع (هو) لغةً بفتح وكسر: مص الثدي. وشرعاً: (مص من ثدي آدمية) ولو بكراً أو ميتةً أو آيسةً، وألحق بالمص الوجور والسعوط (في وقت مخصوص) هو (حولان ونصف عنده وحولان) فقط (عندهما، وهو الأصح) فتح، وبه يفتى كما في تصحيح القدوري عن العون،  لكن في الجوهرة أنه في الحولين ونصف، ولو بعد الفطام محرم وعليه الفتوى. واستدلوا لقول الإمام بقوله تعالى: {وحمله وفصاله ثلاثون شهراً} [الأحقاف: 15] أي مدة كل منهما ثلاثون غير أن النقص في الأول قام بقول عائشة: لايبقى الولد أكثر من سنتين ومثله لايعرف إلا سماعاً، والآية مؤولة لتوزيعهم الأجل على الأقل والأكثر فلم تكن دلالتها قطعيةً، على أن الواجب على المقلد العمل بقول المجتهد وإن لم يظهر دليله كما أفاده في رسم المفتى، لكن في آخر الحاوي: فإن خالفا قيل: يخير المفتي، والأصح أن العبرة لقوة الدليل.

 (قوله: لكن إلخ) استدراك على قوله: وبه يفتى. وحاصله أنهما قولان، أفتى بكل منهما ط ... (قوله: والأصح أن العبرة لقوة الدليل) قال في البحر: ولايخفى قوة دليلهما، فإن قوله تعالى: {والوالدات يرضعن} [البقرة: 233] الآية يدل على أنه  لا رضاع بعد التمام. وأما قوله تعالى: {فإن أرادا فصالاً عن تراض منهما} [البقرة: 233] فإن ما هو قبل الحولين بدليل تقييده بالتراضي والتشاور، وبعدهما لايحتاج إليهما. وأما استدلال صاحب الهداية للإمام وقوله تعالى: {وحمله وفصاله ثلاثون شهراً} [الأحقاف: 15] بناء على أن المدة لكل منهما كما مر، فقد رجع إلى الحق في باب ثبوت النسب من أن الثلاثين لهما للحمل ستة أشهر والعامان للفصال اهـ."

(باب الرضاع، ج:3، ص:209، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102139

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں