بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ حمل میں دی ہوئی طلاق بھی واقع ہو جاتی ہے


سوال

میرے  شوہر  نے  مجھے  حمل  کی حالت میں طلاق دی ہے، کیا حمل میں دی ہوئی طلاق واقع ہو جاتی ہے؟ اور وہ بچے  کی ذمہ داری نہیں لے رہا،  معلوم یہ کرنا ہے کہ  وہ  (شوہر)  بچے کے کتنے ذمہ دار ہیں؟ یعنی:  بچے کے نان ونفقہ اور پرورش کی ذمہ داری کس پر ہو گی؟

جواب

واضح رہے کہ   حمل کی حالت میں دی ہوئی  طلاق  بھی واقع ہوجاتی ہے؛ لہذا صورتِ  مسئولہ میں طلاق واقع ہو چکی ہے،  البتہ حمل کی صورت میں عدت اس وقت ختم ہوگی  جب بچے  کی پیدائش ہوجائے گی۔ 

نیز میاں بیوی میں جدائی کی صورت میں  بچہ سات  سال کی عمر تک اور بچی نوسال کی عمر تک ماں کی پرورش میں رہے گی، اس کے بعد والد کو لینے کا اختیار ہو گا، بہرصورت اس دوران  بچوں  کے نان ونفقہ کی ذمہ داری بچوں کے باپ کی حیثیت سے اس کے ذمے لازم ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"(وحل طلاقهن) أي الآيسة والصغيرة والحامل."

(کتاب الطلاق،ج: 3/ صفحہ: 232، ط: ایچ، ایم، سعید)  

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة... وبعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب و تدفع إلى الأم حتي تنفق علي الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقةً تدفع إلى غيرها لينفق على الولد."

(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1/صفحہ: 560 و561، ط: رشيدية)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200564

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں