بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حمل ابنارمل ہونے کی وجہ سے اسقاط کروانا


سوال

ایک خاتون کے تین بچے ایبنارمل ہیں، اور ڈاکٹروں نے پہلے سے بتایا ہوا تھا کہ  بچے ایبنارمل ہوں گے، اب چوتھی بار بھی وہ خاتون کو یہی کہہ رہے ہیں جب کہ ابھی ایک ماہ ہوا ہے۔تو کیا اس صورت میں ایبارشن کرواسکتے ہیں؟  خاتون کی صحت بھی کمزور ہے اور کیا اس صورت میں خاتون کے شوہر کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کر سکتا ہے؟

جواب

الٹراساؤنڈ اور دیگر آلاتِ جدیدہ کے ذریعہ جو حالات معلوم ہوتے ہیں وہ حالات اور خبریں  یقینی نہیں ہوتیں، اگر یقینی تسلیم کر بھی لیں تو بھی اللہ تعالیٰ حمل کی بقیہ مدت میں اس کی بیماری کو دور کرنے پر قادر ہے،  اوربالفرض آخر وقت تک بھی بچہ صحیح سالم نہ ہو،  پھر بھی اس کے اسقاط کی اجازت نہیں؛  کیوں کہ بیمار انسان کو مارناجائز نہیں، ایسی صورت میں  اللہ پاک سے صحت یابی کی دعاکریں اورا س سے اچھی امید رکھیں، اور  اس وجہ سے بچے کا اسقاط نہ کرایا جائے۔

ہاں! اگر ماں کی صحت کافی حد تک خراب ہو اور اس بچہ کی وجہ سے مزید صحت خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں حمل چار ماہ کے ہونے سے قبل اسقاط کرنا جائز ہو گا، اگر حمل چار ماہ سے زائد کا ہو تو کسی صورت اسقاط کرنا جائز نہیں ہو گا۔

اس کے بعد بیوی  کی صحت کی خرابی کی وجہ سے  میاں بیوی  مانعِ حمل احتیاطی تدابیر بھی اختیار کر سکیں گے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز وأما في زماننا يجوز على كل حال وعليه الفتوى، كذا في جواهر الأخلاطي. وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال: أما في الحرة فلايجوز قولاً واحدًا، و أما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع، كذا في التتارخانية….امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفة أو مضغة أو علقة لم يخلق له عضو وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوما أربعون نطفة وأربعون علقة وأربعون مضغة كذا في خزانة المفتين. و هكذا في فتاوى قاضي خان."

   (5 / 356، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات، کتاب الکراہیۃ، ط؛ رشیدیہ)

  فتاوی شامی میں ہے:

"وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج.

(قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يومًا، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة كذا في الفتح، وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه لأنه أصل الصيد فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح."ٓ

(3 / 176، مطلب فی اسقاط الحمل، باب نکاح الرقیق، ط؛ سعید)

  فتاوی شامی میں ہے:

"أخذ في النهر من هذا ومما قدمه الشارح عن الخانية والكمال: أنه يجوز لها سد فم رحمها كما تفعله النساء" (176/3)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200725

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں