بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہم کو مدینہ بلانا یا رسول اللہ کہنے کا حکم


سوال

جو لوگ بولتے ہیں کہ ہمیں مدینہ بلانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، کیا یہ شرک ہے؟ اگر تاویل ہو سکتی ہے تواس بات کی جائز تاویل کیا ہوسکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی کام کے لیےدوسرے سے مدد مانگنے کے بارےمیں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ کام اسباب کے دائرے میں آتاہو،تو اس کام میں تو اللہ تعالیٰ اور غیر اللہ(جب کہ وہ زندہ ہوں) سب سے مدد مانگناجائز ہے،البتہ جو افعال اسباب کے دائرے میں نہیں آتے اس میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے سے مدد مانگناجائز نہیں ہے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے روضہ کی حاضری کے لیے مدینہ منورہ جانا چوں کہ اسباب کے تحت داخل نہیں ہے،  بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور رضا پہ موقوف ہے،اس لیےمدینہ کے بلاوے کے لیے غیراللہ سے مدد مانگناجائز نہیں ہے،تاہم اگر کوئی شخص محبتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حد درجہ ڈوباہوا ہو، اور وہ بلااختیار،مغلوب الحال ہوکر ان کو اس عقیدے سے مخاطب کرے کہ  فرشتے  آپ ﷺ تک میری بات پہنچاسکتے  ہیں،اور میری بات  آپ ﷺ تک پہنچنے کے بعد وہ اللہ تعالیٰ سے میرے حق میں سفارش کرسکتے ہیں اورپھر اللہ تعالیٰ ہی ان کی سفارش قبول کرکے میری حاضری کے  اسباب بنانے والے ہیں،تو اس صورت میں ایسا کہنے  کی گنجائش ہے۔

"سورة الأحقاف"میں ہے:

"وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَهٗۤ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَ هُمْ عَنْ دُعَآئِهِمْ غٰفِلُوْنَ"(الآية:٥)

ترجمہ:’’اور اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو خدا کو چھوڑ کر ایسے معبود کو پکارے جو قیامت تک بھی اسکا کہنا نہ کرے اور ان کو انکے پکارنے کی بھی خبر نہ ہو۔‘‘

"مشكاة المصابيح"میں ہے:

"وعن ابن عباس قال: كنت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فقال: يا غلام احفظ الله يحفظك احفظ الله ‌تجده ‌تجاهك وإذا سألت فاسأل الله وإذا استعنت فاستعن بالله واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك ولو اجتمعوا على أن يضروك بشيءلم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك رفعت الأقلام وجفت الصحف."

(ص:١٤٥٩،ج:٣،کتاب الرقاق،باب التوکل والصبر،ط:المکتب الإسلامي)

"مرقاة المفاتيح"میں ہے:

" وإذا سألت  أي: أردت السؤال " فاسأل الله " ... فاسأل الله وحده، فإن خزائن العطايا عنده ومفاتيح المواهب والمزايا بيده، وكل نعمة أو نقمة دنيوية أو أخروية، فإنها تصل إلى العبد أو تندفع عنه برحمته من غير شائبة عرض ولا ضميمة علة ; لأنه الجواد المطلق والغني الذي لا يفتقر، فينبغي أن لا يرجى إلا رحمته، ولا يخشى إلا نقمته، ويلتجأ في عظائم المهام إليه، ويعتمد في جمهور الأمور عليه، ولا يسأل غيره؛ لأن غيره غير قادر على العطاء والمنع ودفع الضر وجلب النفع فإنهم لا يملكون لأنفسهم نفعا ولا ضرا، ولا يملكون موتا ولا حياة ولا نشورا."

(ص:٣٣٢٤،ج:٨،کتاب الرقاق،باب التوكل والصبر،ط:دار الفكر،بيروت)

’’اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم‘‘ میں ہے:

’’ان میں سے ایک مشہور مسئلہ یہ ہے کہ ’’یا رسول اللہ‘‘ کہنا جائز ہے یا نہیں؟ اس مسئلے میں میری رائے یہ ہے کہ ’’یا رسول اللہ‘‘ کہنے کی کئی صورتیں ہیں ، اور سب کا حکم ایک نہیں ، مثلاً: ایک صورت یہ ہے کہ شعراء اپنے تخیل میں جس طرح کبھی باد صبا کو خطاب کرتے ہیں، اور کبھی پہاڑوں اور جنگلوں کو بھی حیوانات اور پرندوں کو ، ان میں سے کسی کا یہ عقیدہ نہیں ہوتا کہ جن کو وہ خطاب کر رہے ہیں، وہ ان کی بات کو سنتے اور اس کا جواب دیتے ہیں، بلکہ یہ محض ایک ذہنی پرواز اور تخیلاتی چیز ہوتی ہے، جس پر واقعاتی احکام جاری نہیں ہوتے، اسی طرح شعراء کے کلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو، یا دیگر مقبولانِ الہی کو تخیلاتی طور پر جو خطاب کیا جاتا ہے، میں اس کو صحیح اور درست سمجھتا ہوں ، دوسری صورت یہ ہے کہ جس طرح عشاق اپنے محبوبوں کو خطاب کرتے ہیں، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محض اظہار محبت کے لئے خطاب کیا جائے، واقعتا ندا مقصود نہ ہو، یا جس طرح کہ کسی مادر شفیق کا بچہ فوت ہو جائے تو وہ اس کا نام لے کر پکارتی ہے، وہ جانتی ہے کہ اس کی آہ و بکا کی آواز بچے کی قبر تک نہیں پہنچ رہی ، اس کے باوجود وہ اپنی مامتا کی وجہ سے ایسا کرنے پر گویا مجبور ہے، اسی طرح جو عشاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عشق میں واقعی جل بھن گئے ہوں اور انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارے بغیر کسی کروٹ چین ہی نہ آئے ، حالاں کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی آہ و بکا سامعہ مبارک تک نہیں پہنچتی ، ان کا ’’یا رسول اللہ‘‘ کہنا بھی جائز ہوگا ، بشر طیکہ عقیدے میں فساد نہ ہو۔‘‘

(ص:٥٣-٥٤،ط:مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں