بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہم جنس پرستی سے توبہ کرنا


سوال

 میرا ایک دوست ہے جس کے ساتھ مجھے بے حد پیار اور میں اس کو ہمیشہ ساتھ رکھنا چاہتا ہوں لیکن گھر والے اجازت نہیں دیتے اور نہ اس کو پسند کرتے ہیں اس کے بغیر نہ تو میرا کام میں دل لگتا ہے اور نہ گھر میں، شادی ہو چکی ہیں تین سال ہوئے اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری نہیں کی کیونکہ میرے ذہن میں بس وہی لڑکا ہوتا ہے اس کے علاوہ کچھ بھی اچھا نہیں لگتا اور بات یہاں تک پہنچی ہے کہ کبھی کبھی ہم جسمانی طور پر بھی مل لیتے ہیں ایسے حالات سے خود کو کیسے نکالوں کچھ سمجھ نہیں آ رہا پلیز راہ نمائی فرمائیں کیونکہ اس کے بغیر جینے کو بھی دل نہیں کرتا۔

جواب

واضح رہے کہ   ہم جنس پرستی زنا سے زیادہ بدتر جرم ہے سابقہ امتوں میں سے حضرت لوط علی نبینا وعلیہ السلام کی امت پر اسی قبیح عمل کو اختیار کرنے کی وجہ سے عذاب آیا تھا ان کی بستی کو اوپر اٹھا کر زمین پر الٹ دیا گیا تھا اور پھر پتھروں کی بارش برسائی گئی تھی جس سے پوری قو م ہلاک ہوگئی تھی لہذا اس جرم کی شدت زنا سے زیادہ ہے اور  اس کی سزا بھی زنا سے زیادہ سخت ہے اور بدفعلی خواہ کسی کے ساتھ بھی ہو چاہے اس کی رضاسے ہو یا جبری ہو، عقلاً، طبعًا، شرعًا انتہائی شنیع اور قبیح ترین عمل ہے، اس کی حرمت اور مذمت قرآن پاک کی کئی آیات اور احادیثِ مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں ۔ مثلاً:  سورۂ اعراف، آیت 80 میں اسے "فاحشہ" سے تعبیر کیا گیا ہے جس کی تفسیر میں مفسرین نے وضاحت کی ہے کہ یہ (غیر محل میں شہوت پوری کرنے کے اعتبار سے) زنا کی طرح ہے۔ نیز بعض احادیث میں نبی کریم ﷺ نے جن لوگوں پر لعنت کی ہے، ان میں سے لواطت کرنے والے بھی ہیں۔ اسی طرح ایک موقع پر حضرت علیؓ نے کبیرہ گناہوں میں لواطت کو بھی شامل کیا ہے۔  نیز یہ قبیح فعل اللہ کی رحمت سے دوری کا باعث ہے،بعض روایات میں اس قابلِ لعنت فعل کی بہت سخت سزائیں وارد ہوئی ہیں؛ شریعت میں اس کے لیے ’’حد‘‘ مقرر نہیں ہے، بلکہ یہ حاکمِ وقت کی رائے پر مفوض کر دیا گیا کہ وہ جو سزا تجویز کرنا  مناسب سمجھے وہ سزا تجویز کردے، مثلاً اس کو قید کیا جا سکتا ہے، اور اگر بار بار کرتا ہو تو اس کو قتل کر دیا جائے وغیرہ، ایسے مجرم کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مختلف قسم کی سزائیں ثابت ہیں۔ لہذا سائل  پر لازم ہے کہ اپنے اس قبیح فعل پر سچے دل سے اللہ کے حضور توبہ کرے، اور آئندہ  اس فعل کے نہ کرنے کا پختہ عزم کرے، نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرے،  کسی متبعِ سنت بزرگ عالم سے اصلاحی تعلق قائم کرلے ، ان کی مجالس میں پابندی سے شرکت کرے۔بروں کی صحبت ترک کردے،اور ان تمام افراد سےاور بالخصوص مذکورہ دوست   اور ایسے  مقامات سے  اجتناب کرے جہاں جہاں اس قبیح فعل میں پڑھنے کا اندیشہ ہو۔اور سائل شادی شدہ ہے لہذا اپنی خواہش کو جائز طریقے سے پوری کرے۔باجماعت نمازوں کا اہتمام کرے اور   کثرت سے اس دعا کوہر نماز کے بعد پڑھنے کا اہتمام کریں : "اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُكَ الْهُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰی". اور روزانہ دن یا رات میں کوئی ایک وقت مقرر کرکے اچھی طرح وضو کرکے تنہائی میں دو رکعت نماز، توبہ اور حاجت کی نیت سے پڑھ کر گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگیں، خوب روئیں، اگر رونا نہ آئے تو رونے کی کوشش کریں اور رونے جیسی شکل بنا لیں، اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے دعا کریں کہ وہ آپ کو تمام گناہوں، خصوصاً اس گناہ سے نجات دے دے۔ صبح و شام اور دیگر اوقات میں سید الاستغفار  بھی پڑھا کریں، سید الاستغفار یہ ہے:

  "اَللّٰهَمَّ أَنْتَ رَبِّيْ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِيْ وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَی عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ ، أَبُوْءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ وَأَبُوْءُ بِذَنْبِيْ، فَاغْفِرْلِيْ فَإِنَّه لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ". [رواه مسلم]

ترجمہ:اے اللہ!  تو ہی میرا رب ہے،  تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں جس قدرطاقت رکھتا ہوں، میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں،اپنے آپ پر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں،پس مجھے بخش دے؛  کیوں کہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔

تفسیر قرطبی میں ہے :

"الثانية- قوله تعالى: (أتأتون الفاحشة) يعني إتيان الذكور. ذكرها الله باسم الفاحشة ليبين أنها زنى".

(ج:7،ص:243،ط:دارالکتب المصریہ، قاہرہ)

مسند أحمد بن حنبل میں ہے:

"حدثنا حجاج، أخبرنا عبد الرحمن بن أبي الزناد، عن عمرو بن أبي عمرو، عن عكرمة، عن ابن عباس، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لعن الله من غير تخوم الأرض، لعن الله من ذبح لغير الله، لعن الله من لعن والديه، لعن الله من تولى غير مواليه، لعن الله من كمه أعمى عن السبيل، لعن الله من وقع على بهيمة، لعن الله من عمل عمل قوم لوط، لعن الله من عمل عمل قوم لوط " ثلاثًا".

(ج:1،ص:108،ط:مؤسسہ قرطبہ قاہرہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في حكم اللواطة (قوله: بنحو الإحراق إلخ) متعلق بقوله: يعزر. وعبارة الدرر: فعند أبي حنيفة يعزر بأمثال هذه الأمور. واعترضه في النهر بأن الذي ذكره غيره تقييد قتله بما إذا اعتاد ذلك. قال في الزيادات: والرأي إلى الإمام فيما إذا اعتاد ذلك، إن شاء قتله، وإن شاء ضربه وحبسه. ثم نقل عبارة الفتح المذكورة في الشرح، وكذا اعترضه في الشرنبلالية بكلام الفتح. وفي الأشباه من أحكام غيبوبة الحشفة: ولايحد عند الإمام إلا إذا تكرر؛ فيقتل على المفتى به. اهـ. قال البيري: والظاهر أنه يقتل في المرة الثانية لصدق التكرار عليه. اهـ".

(ج:4،ص:27،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وفي البحر: حرمتها أشدّ من الزنا؛ لحرمتها عقلًا وشرعًا وطبعًا".

(مطلب لاتكون اللواطة في الجنة، ج4، ص:28، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم     


فتوی نمبر : 144312100818

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں