بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہم جنس چیزوں کا تبادلہ نصف صاع سے کم ہونے کی صورت میں حکم


سوال

ہم جنس  چیزوں میں نصف   صاع سے کم میں زیادتی کے ساتھ بیع کرنا کیسا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

"عن عبادة بن الصامت رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، والبر بالبر، والشعیر بالشعیر، والتمر بالتمر، والملح بالملح، مثلًا بمثل سواءً بسواء یدًا بید ․․․ الخ“ (مشکوٰة ص:244)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ چیزوں کا ذکر فرمایا، سونا، چاندی، گیہوں، جَو، کھجور، نمک، اور فرمایا کہ: جب سونا، سونے کے بدلے، چاندی، چاندی کے بدلے، گیہوں، گیہوں کے بدلے، جَو، جَو کے بدلے، کھجور، کھجور کے بدلے، نمک، نمک کے بدلے فروخت کیا جائے تو برابر ہونا چاہیے اور ایک ہاتھ لے دُوسرے ہاتھ دے، کمی سود ہے۔ (مسندِ احمد ج:۲ ص:۲۳۲)

مذکورہ حدیث ’’ربا‘‘  (سود) کے بیان میں اصولی حدیث ہے،  جمہور  فقہاءِ امت نے ان چھ چیزوں کو صرف علامتی تعبیر قرار دیا اور ان سے علت دریافت کی ہے  کہ جہاں وہ علت پائی جائے گی وہاں سود کا حکم بھی لاگو ہوگا۔

البتہ سود کی علت کے بارے میں فقہاء کی آراء مختلف ہیں، احناف رحمہم اللہ  نے اس حدیث سے استنباط کرتے ہوئے سود کی دو علتیں نکالی ہیں: ایک "جنس" اور دوسری "قدر"، مثلًا دو ایسی چیزیں  جن کی اصل الگ الگ  ہو  (جیسے  گندم اور  جَو)، یا ان کا مقصود الگ  الگ ہو  (جیسے گندم کا دانا اور اس کا آٹا)  وہ الگ جنس شمار ہوں گی،   اور ’’قدر‘‘  سے مراد مخصوص شرعی پیمانہ (کیل یا وزن) ہے جس سے اشیاء کو ناپا یا تولا جاتا ہو، اور شرعًا کم ازکم جو پیمانہ معتبر ہے وہ نصف صاع (تقریبًا پونے دو کلو) ہے، جیسا کہ صدقہ فطر ، تو  اب جنس اورقدر کا حاصل یہ ہوا کہ ربا کی علت "الكیل مع الجنس" ہے، یعنی وہ دونوں چیزیں کیلی بھی ہوں  (یعنی ناپ کر بیچی جاتی ہوں) اور ان کی جنس بھی ایک ہو۔

اب ایک جنس یا ایک قدر والی اشیاء کی باہم خرید و  فروخت کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں:

       1- دو ایسی چیزیں  جن کی  جنس  ایک ہو   اور وہ  قدر (کیلی ہونے یا وزنی ہونے ) میں بھی متحد ہوں  تو  خرید وفروخت میں ان کا برابر ہونا اور دونوں جانب سے نقد ہونا  ضروری ہے، یعنی جس مجلس میں خرید وفروخت ہو اسی میں جانبین سے قبضہ بھی پایا جائے، ( یداً بیدٍکا یہی مطلب ہے)۔

مذکورہ صورت میں (یعنی جنس اور قدر ایک ہونے کی صورت میں) اگر کوئی چیز ایک جانب سے زیادہ ہو اور دوسری جانب سے کم ہو تو یہ سود ہے، اسے اصطلاح میں "ربو الفضل"یا "ربو التفاضل"   کہا جاتا ہے، یعنی کمی زیادتی کی وجہ سے سود ہے۔

اسی طرح  جنس اور قدر ایک ہونے کی صورت میں اگر ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار ہو تو یہ بھی سود ہے، اسے اصطلاح میں "ربو النسیئة"  کہتے ہیں، یعنی ادھار ہونے کی وجہ سے سود ہے۔

       2- اگر دونوں کی جنس ایک ہو،  لیکن قدر  (کیلی ہونے یا وزنی ہونے میں) الگ الگ ہو، یا  جنس الگ الگ ہو لیکن قدر ایک ہو  تو انہیں کمی بیشی کے ساتھ تو خرید فروخت کیا جاسکتا ہے،  لیکن ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار جائز نہیں ہے، یعنی اس صورت میں  کمی بیشی  جائز ہے، اور اُدھار حرام ہے۔

                  3- اگر جنس اور قدر دونوں مختلف ہوں تو کمی بیشی بھی جائز ہے اور ادھار بھی جائز ہے۔

مذکورہ اشیاء کا بطورِ قرض لین دین جائز ہے، البتہ واپسی کے وقت وہ چیز اتنی ہی لوٹانا ضروری ہوگی، خواہ واپسی میں مقررہ وقت سے تاخیر ہوجائے۔

 گھروں میں خورد و نوش کی اشیاء (مثلاً: آٹا، دودھ و غیرہ) کی جو باہم لین دین کی جاتی ہے،  وہ یا تو بہت کم مقدار میں ہوتی ہیں  (یعنی نصف صاع/ پونے دو کلو سے بھی کم ہوتی ہیں جو كيل كے شرعي پيمانے پر نه اترنے كي بنا پر اس حكم سے مستثني هے) اور اگر مقدار میں زیادہ ہوں تو بھی ان کا لین دین عقدِ معاوضہ (خرید و فروخت) کے طور پر نہیں، بلکہ قرض کے طور پر ہوتا ہے اور گھی،آٹا،چینی وغیرہ کا قرضہ جائز ہے، چناں چہ واپسی کے وقت وہ اشیاء اتنی ہی لوٹانا واجب ہوگا، یعنی جتنے برتن بھر کر وصول کرے واپسی میں اسی طرح کے اتنے برتن بھر کر ادا کردے۔

مذکورہ بالا  تفصیل کے بعد واضح رہے کہ ہم جنس اشیاء کا نصف صاع سے کم میں كمي زیادتی کے ساتھ لین دین جائز ہے ۔  چنانچہ فتاوٰی ہندیہ میں ہے : 

"و يجوز بيع الحفنة بالحفنتين والتفاحة بالتفاحتين، وما دون نصف صاع في حكم الحفنة."

( الفتاوى العالمكيرية: كتاب البيوع ، الباب التاسع، الفصل السادس في تفسير الربا وأحكامه، (3/117)، ط: رشیدیه، كوئٹه) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200232

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں