بندے نے اپنی اہلیہ کو حالتِ نفاس میں طلاق دے دی ہے،بچی اُس وقت 25 دن کی تھی،آیا طلاق واقع ہوئی یا نہیں ہوئی؟اور الفاظ ِطلاق اپنی اہلیہ کو براہِ راست نہیں کہے،بلکہ اپنی اہلیہ کے بہنوئی کووائس میں بتائے تھے،اور الفاظ یہ ہیں،کہ "۔۔۔۔ کومیں تین بار طلاق دے چکا ہوں،اس سے اور اس کی اولاد سے کوئی واسطہ نہیں ہے"،اب بندہ کافی پریشان ہے،کہ کسی بھی صورت میں مسئلہ حل ہو،بغیر حلالہ کے اگر کوئی راستہ ہو تواس کی طرف راہ نمائی کریں۔
صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے اپنی بیوی کے بہنوئی سے یہ کہا کہ:" ۔۔۔ کومیں تین بار طلاق دے چکا ہوں،اس سے اور اس کی اولاد سے کوئی واسطہ نہیں ہے"تو اس سےاس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، نکاح ختم ہو گیا ہے، دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں اور اب رجوع یا تجدیدِ نکاح کی اجازت نہیں ہے، عدت گزرنے کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی، دوسری جگہ نکاح کرنے کی صورت میں اگر ازدواجی تعلق قائم ہونے کے بعد دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ طلاق دے دے تو اس دوسرے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد دوبارہ پہلے شوہر سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کی اجازت ہوگی۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل -: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ،وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."
(كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق، ج:3، ص:187، ط: رشيدية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144412100622
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن