بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ حمل کی طلاق کا حکم


سوال

ڈھائی مہینے پہلے میں نے  اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، طلاق کے الفاظ یہ تھے:" طلاق دیتا ہوں تیرے کو، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں،" میری بیوی اس وقت سسرال میں تھی اور اب بھی وہیں ہے، طلاق کے  وقت وہ حمل سے تھی اور اب بھی حمل سے ہے، دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا یہ طلاق واقع ہو گئی یا نہیں؟ میرے گھر والے کہہ رہے ہیں کہ حمل کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی، ہماری شرعی رہنمائی فرمائیں !

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اور وہ سائل پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،اب رجوع یا دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں، نيز آپ كے گھر والوں کی یہ بات درست نہیں کہ حالتِ حمل میں طلاق نہیں ہوتی، بلکہ حالتِ حمل میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اسی طرح بیوی کی عدم موجودگی میں اگر شوہر طلاق دے  تو بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

صحیح البخاری میں ہے:

"عن ابن شهاب قال: أخبرني عروة بن الزبير:أن عائشة أخبرته: ‌أن ‌امرأة ‌رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته)."

(كتاب الطلاق، باب: من أجاز طلاق الثلاث، ج:5، ص:2014، ط: (دار ابن كثير)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و إن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة و ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية. و لا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير."

(کتاب الطلاق ،فصل فیما تحل به المطلقة ومایتصل به ،ج:1،ص:473،ط: رشیدیة)

"البناية شرح الهداية" میں ہے:

"وطلاق الحامل يجوز عقيب الجماع، لأنه لا يؤدي إلى اشتباه وجه العدة، وزمان الحبل زمان الرغبة في الوطء لكونه) ش: أي لكون الوطء  (غير معلق)  أي غير محبل".

(كتاب الطلاق،باب طلاق السنة، ج:5،ص: 291،ط:العلمية)

فقط واللہ تعالی اعلم


فتوی نمبر : 144507101808

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں