بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حالت حیض میں مقعد میں ذکر داخل کیے بغیر استمتاع حاصل کرنا؟


سوال

مقعد میں ذکر داخل کیے بغیر لواطت متحقق ہو گی؟ حالت حیض میں اس طریقے سےوطی کر کے لذت حاصل کر سکتے ہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ شوہر کے لیے بیوی سے اس کی  ماہواری کے ایام میں  ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے حصہ سے بغیر حائل کے نفع اٹھانا  شرعاً ممنوع قرار دیاگیا ہے، البتہ اس حصہ کے علاوہ باقی تمام بدن سے  فائدہ اٹھانے کی شرعاً اجازت ہے۔

لہذا اگر ناف سے گھٹنوں تک کا حصہ کپڑے سے ڈھکا ہوا ہو تو شوہر کو بیوی کے ساتھ لیٹنے کی اجازت ہے،البتہ اگر اس صورت میں بھی جماع کی جانب راغب ہونے کا احتمال ہوتو اس طریقے سے بھی اجتناب کرنا چاہیے؛لہذاصورت مسئولہ میں   مذکورہ طریقہ سے  لذت حاصل کرنا شرعاناجائز   ہے،اگرچہ لواطت کے حکم میں نہیں۔

''تنویر الابصار مع الدر المختار'' میں ہے:

''(و) يمنع... (و قربان ماتحت إزار) يعني مابين سرة و ركبة ولو بلاشهوة و حل ماعداه مطلقاً''.

(باب الحيض،ج:1،ص:292،ط:سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"والدليل مشرق على مدعي البحر وذلك أن الشارع إنما نهى عن المباشرة وهي أن يتلاقى الفرجان بلا حائل لكن لما كان للفرج حريم وهو ما بين السرة والركبة منع أيضا خشية الوقوع فيما عساه يقع فيه باقتراب هذا الموضع فإن من حام حول الحمى يوشك أن يقع فيه أو يقال: إن الشارع حكيم وهذه المواضع لا تخلو عن لوث نجاسة فنهى عن القرب خشية التلوث فبقي النظر إلى هذه المواضع على أصل الإباحة بالزوجية فتحريمه لا دليل عليه. اه.

قلت: وقد يقال إن النظر من الحوم حول الحمى ولهذا حرم في الأجنبية في وجهها بشهوة كما لا يخفى، وقد علم من عباراتهم أن يجوز الاستمتاع بالسرة وما فوقها وبالركبة وما تحتها والمحرم الاستمتاع بما بينهما وهي أحسن من عبارة بعضهم يستمتع بما فوق السرة وما تحت الركبة كما لا يخفى فيجوز له الاستمتاع فيما عدا ما ذكر بوطء وغيره ولو بلا حائل وكذا بما بينهما بحائل بغير الوطء ولو تلطخ دما."

(كتاب الطهارة ،مايمنعه الحيض،ج:1،ص:209،ط:منحة الخالق)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506102541

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں