بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عمرہ کے طواف میں سات چکر سے زائد لگانے کے بعد خوشبو والے صابن سے نہانے کا حکم


سوال

مجھے  عمرے کے طواف میں شک واقع ہو ا،اور  سات چکر سے زیادہ چکر کا طواف  کرلیا، علماء سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس کو نئے سرے سے شروع کرنا ضروری ہے ،لیکن میں نے  سات سے زیادہ چکر کا طواف کرکے حلق کے بعد خوشبو والے صابن سے نہاچکا تھا،پھر ایک دن بعد اس طواف کا اعادہ تو کرلیا، لیکن درمیان میں جو خوشبو والے صابن سے نہایا ہوں، اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل نےعمرہ کے طواف میں ساتواں چکرلگانےکےبعدشک کی وجہ سے مزیدآٹھواں چکربھی لگالیاتوایسی صورت میں سائل پرمذکورہ طواف کا اعادہ کرنا لازم تھا،اگر اُس طواف کا اعادہ کیاجاچکاتو اب مزید کسی طواف کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔

باقی سائل چوں کہ پہلے طواف میں اکثر چکر(چار)سے زائد چکر  لگا کر طواف مکمل کرچکاتھا،اس لیےاگر عمرہ کے بقیہ تمام افعال ادا کرکے حلق کرلیا ہوتو حلق کرنے سے احرام کی پابندیاں اس سے ختم ہوگئی تھیں،چنانچہ اس کے بعد خوشبو والے صابن سے نہانے کی وجہ سے اس پر کوئی دم وغیرہ لازم نہیں ہے۔

"عمدۃ الفقہ" میں ہے:

" اگر فرض طواف یعنی طوافِ حج یا طوافِ عمرہ( طواف رکن) کے چکروں کی تعداد میں زیادتی یاکمی کا شک ہو جائے تو احتیاطاً اس طواف کا اعادہ کرے اور اس کو اپنے گمانِ غالب پر عمل نہیں کرنا چاہیے ... اور اگر فرض و واجب طواف کے علاوہ کسی اور طواف کے چکروں کی تعداد میں شک ہو جائے تو اس کا اعادہ نہ کرے، بلکہ اپنے گمانِ غالب پر عمل کرلے، کیونکہ فرض و واجب کے علاوہ کسی اور طواف کے حکم میں وسعت و گنجائش  ہے ۔ "

(کتاب الحج، متفرق مسائلِ طواف، ج:4، ص: 195، ط: زواراکیڈمی پبلی کیشنز)

"البحرالرائق" میں ہے:

"ولو ‌شك ‌في ‌عدد ‌الأشواط في طواف الركن أو العمرة أعاده ولا يبني على غالب ظنه بخلاف الصلاة."

(كتاب الحج، ج:2،ص:356،ط:دارالكتاب الإسلامي)

"فتاوی شامی" میں ہے:

'' لو شك في عدد الأشواط في طواف الركن أعاده، ولا يبني على غالب ظنه، بخلاف الصلاة ...، لباب قال شارحه ومفهومه أنه لو شك في أشواط غير الركن لا يعيده بل يبني على غلبة ظنه ؛ لأن غير الفرض على التوسعة، والظاهر أن الواجب في حكم الركن ؛ لأنه فرض عملي .''

(کتاب الحج، 496/2، ط: سعيد)

"البحرالرائق" میں ہے:

"والخروج عن الإحرام إنما يكون بالحلق أو التقصير."

(كتاب الحج، باب الإحرام،ج:2، ص:372، ط:دارالكتاب الإسلامي)

"الموسوعۃ الفقہیہ " میں ہے:

"لا خلاف أن عدد أشواط الطواف المطلوبة سبعة، لكن الفقهاء اختلفوا بعد ذلك في ركنية السبعة:فالجمهور على أن الركن سبعة أشواط لا يجزئ عن الفرض أقل منها.

وقسم الحنفية السبعة إلى ركن وواجب. أما العدد الركن فأكثر هذه السبعة، وأما الواجب فهو الأقل الباقي بعد أكثر الطواف...واستدل الحنفية بأدلة، منها:

(1) قوله تعالى: {وليطوفوا بالبيت العتيق} وهذا أمر مطلق عن أي قيد، والأمر المطلق يوجب مرة واحدة، ولا يقتضي التكرار، فالزيادة على شوط من الطواف تحتاج إلى دليل آخر، والدليل قائم على فرضية أكثر السبع، وهو الإجماع، فتكون فرضا، ولا إجماع على فرضية الباقي، فلا يكون فرضا بل واجبا. (2) أن الطائف قد أتى بأكثر السبع، والأكثر يقوم مقام الكل، فكأنه أدى الكل .وقال كمال الدين بن الهمام من الحنفية: الذي ندين به أنه لا يجزئ أقل من سبع، ولا يجبر بعضه بشيء."

(بحث الطواف،ج:29،ص:124، ط:دارالصفوة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101508

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں