بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالت حیض میں نذرکے روزے رکھنے کا حکم


سوال

 ایک عورت کا بچہ گم ہوگیا اس نے نذر مانی کہ جب تک میرا بچہ نہیں مل جاتا میں روزے رکھتی رہوں گی، لیکن بچہ ابھی تک نہیں ملا کافی مہینے ہوگئے ہیں،اب وہ عورت کیا کرے بیچ میں حيض اور رمضان کے روزے آتے ہیں؟ان ایام  میں وہ عورت کیا کرے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃًکسی عورت نےیہ الفاظ کہے ہوں "کہ: میں  نذرمانتی ہوں   کہ جب تک میرابچہ نہیں مل جاتاتومیں روزےرکھتی رہوں گی،"توایسی صورت میں یہ نذرشمارہوگی،لہٰذاایسی عورت پربچہ مل جانےتک روزے رکھنے لازم ہیں البتہ اس دوران سال کے اندر پانچ دن (عیدین اور ایام تشریق)اورماہواری کےایام  اوررمضان  کےروزوں میں ایسی عورت پرنذرکےروزےرکھناضروری نہیں ہے،البتہ بعد میں اس عورت پران ایام کی قضاءاداکرنالازمی ہے،اگرزندگی میں ان ایام  کی قضاءاداکرنےکاموقع نہیں ملا،توان ایام کافدیہ اداکرناضروری ہوگا،اورموت سےپہلےان ایام والےروزوں کافدیہ اداکرنےکی وصیت کرناضروری ہوگا۔

بصورت دیگراگرمذکورہ خاتون نے نذر اور منت کے الفاظ کہے بغیر صرف یہ کہاہو،"کہ جب تک میرابچہ نہیں مل جاتاتومیں روزےرکھتی رہوں گی،"توایسی صورت میں مذکورہ الفاظ کہنےسےکوئی نذرمنعقدنہیں ہوگی،اورنہ خاتون پرروزےرکھناضروری ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ثم إن) المعلق فيه تفصيل فإن (علقه بشرط يريده كأن قدم غائبي) أو شفي مريضي (يوفي) وجوبا (إن وجد) الشرط (و) إن علقه (بما لم يرده كإن زنيت  بفلانة) مثلا فحنث (وفى) بنذره (أو كفر) ليمينه (على المذهب) لأنه نذر بظاهره يمين بمعناه فيخير ضرورة ....(قوله : ثم إن المعلق إلخ) اعلم أن المذكور في كتب ظاهر الرواية أن المعلق يجب الوفاء به مطلقا: أي سواء كان الشرط مما يراد كونه أي يطلب حصوله كإن شفى الله مريضي أو لا كإن كلمت زيدا أو دخلت الدار فكذا."

(كتاب الأيمان، ج:3، ص:738، ط : سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(ومن نذر نذرا مطلقا أو معلقا بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض (وهو عبادة مقصودة) ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر)‌إن ‌كان معلقا بشرط وإلا لزم في الحال والمراد الشرط الذي يريد كونه كما يأتي تصحيحه."

(كتاب الأيمان، مطلب فى أحكام النذر، ج:3، ص:735، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"إذا نذر أن يصوم كل خميس يأتي عليه فأفطر خميساً واحداً فعليه قضاؤه، كذا في المحيط.... وإذا أوجبت المرأة على نفسها صوم سنة بعينها قضت أيام حيضها؛ لأن تلك السنة قد تخلو عن أيام الحيض فصح الإيجاب، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الصوم، الباب السابع في الإعتكاف، ج:1، ص، 209، 210، ط: دار الفكر)

وفیہ ایضاً:

"‌ولو ‌قال لله علي صوم هذه السنة أفطر يوم الفطر ويوم النحر، وأيام التشريق وقضاها كذا في الهداية."

(كتاب الصوم، الباب السابع في الإعتكاف، ج:1، ص، 209، 210، ط: دار الفكر)

وفیہ ایضاً:

"وقد روي عن محمد - رحمه الله تعالى - قال: إن علق النذر بشرط يريد كونه كقوله إن شفى الله مريضي أو رد غائبي ‌لا ‌يخرج عنه بالكفارة كذا في المبسوط.ويلزمه عين ما سمى كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الأيمان، الباب الثاني فيما يكون يمينا وما لا يكون، الفصل الثاني في الكفارة، ج:2، ص:65، ط: دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌ولو ‌نذر ‌صوم ‌الأيام ‌المنهية أو) صوم هذه (السنة صح) مطلقا على المختار، وفرقوا بين النذر والشروع فيهابأن نفس الشروع معصية، ونفس النذر طاعة فصح (و) لكنه (أفطر) الإيام المنهية (وجوبا) تحاميا عن المعصية (وقضاها) إسقاطا للواجب (وإن صامها خرج عن العهدة) مع الحرمة."

(‌‌كتاب الصوم، ‌‌فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، ص:2، ص:433، ط: سعيد)

المحيط البرهاني میں ہے:

"إذا نذر أن يصوم يوم كذا ما عاش، ثم كبر، وضعف عن الصوم يطعم مكان كل يوم مسكينا، وإن لم يقدر لعسرته يستغفر الله تعالى، فإن ضعف عن الصوم في ذلك اليوم لمكان الصيف كان له أن يفطر، وينتظر حتى إذا كان في الشتاء صام يوما مكانه؛ لأنه لو سافر في ذلك اليوم يفطر، ويصوم مكانه فكذا ههنا؛ لأن المرض والسفر كلاهما سبب العذر، ومن جنس هذه المسألة إذا قال: لله علي أن أصوم أبدا، فضعف عن الصوم لاشتغاله بالمعيشة كان له أن يفطر؛ لأنه لو لم يفطر يقع الخلل في جميع الفرائض، ويطعم كل يوم نصف صاع من الحنطة؛ لأنه متيقن أنه لا يقدر على قضائه أبدًا."

(الباب  السادس عشر فی صدقۃ الفطر، ج:2، ص:405، ط:  دارالكتب العلميه)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة  (وكذا حكم الوتر) والصوم."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب قضاء الفوائت، ج:2، ص:74، ط: سعيد)

نذرکے مسائل کاانسائیکلوپیڈیا میں ہے:

اگرکسی عورت نےنذمانی ہےکہ"جب تک اولادنہیں ہوگی ہرجمعرات کواللہ کےلیےروزہ رکھےگی"توجب تک اولادنہیں ہوگی ہرجمعرات کوروزہ رکھنالازم ہوگا،اوراگرساری عمراس کے یہاں اولاد نہیں ہوئی،اورعمر کے اس مرحلہ میں پہنچ گئی کہ روزہ رکھنے کی قدرت نہیں رہی،تواس وقت ہر جمعرات کےروزےکے بدلہ ایک صدقۃ فطر کے بقدر فدیہ دینالازم ہوگا،اورجب تک روزہ رکھنےپرقدرت ہوگی روزہ رکھنالازم ہوگا،فدیہ اداکرناکافی نہیں ہوگا۔

(زیرعنوان:جمعرات کوروزہ رکھنے کی نذر، ص:159، ط: بیت العمارکراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100331

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں