بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ جنابت میں غسل کیے بغیر نوکری پر جانے کا حکم


سوال

اگر غسل جنابت وقت پر نہیں کر سکیں اور نوکری پر چلے جائیں اور واپس آکر کرلیں تو اس پر گنہگار ہے؟

جواب

ہم بستری کے بعد افضل یہی ہے کہ  آدمی جلدی غسل کر کے پاک صاف ہوجائے، لیکن اگر نماز کے وقت تک غسل کو مؤخر کردے تو گناہ گار نہیں ہوگا، لیکن اگر نماز کا وقت داخل ہوجائے پھر بھی غسل نہ کرے تو نماز میں تاخیر یا نماز فوت کرنے کی وجہ سے گنہگار ہو گا، اور صورتِ مسئولہ میں کام پر جانے سے پہلے ہی غسل کرنا ضروری ہے؛ کیوں کہ کام کے دوران ہی نماز کے اوقات بھی آتے ہیں، اور  نماز کے اوقات میں ناپاک رہنایہاں تک کہ نماز کا وقت نکل جائے جائز نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’ الجنب إذا أخر الاغتسال إلى وقت الصلاة لا يأثم. كذا في المحيط.

قد نقل الشيخ سراج الدين الهندي الإجماع على أنه لا يجب الوضوء على المحدث والغسل على الجنب والحائض والنفساء قبل وجوب الصلاة أو إرادة ما لا يحل إلا به. كذا في البحر الرائق كالصلاة وسجدة التلاوة ومس المصحف ونحوه. كذا في محيط السرخسي‘‘.

‌(الفصل الأول فيما يجوز به التوضؤ، ج: 1، ص: 16، ط: دار الفكر بيروت)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

قال: "وإن توضأ قبل أن ينام فهو أفضل" لحديث عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم أصاب من أهله فتوضأ ثم نام وهذا لأن الاغتسال والوضوء محتاج إليه للصلاة لا للنوم و المعاودة إلا أنه إذا توضأ ازداد نظافة فكان أفضل.

(باب الوضوء والغسل، ج: 1، ص: 131، ط: دار المعرفة بيروت لبنان)

فقط واللہ اعلم



فتوی نمبر : 144506102215

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں