1۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ چند دن قبل میرے بیٹے نے مجھے فون کیا کہ آپ جلدی سے گھر آئیں، جب میں گھر پہنچا تو بیٹے نے بتایا کہ ہم دونوں میاں بیوی کی بحث و تکرار ہوئی اور میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ان الفاظ میں دی کہ " میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں"، ان کی بیوی حالتِ حیض میں تھی، میں نے پھر پوچھا کہ تین بار طلاق دی؟ تو بیٹے نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہاں میں نے تین بار طلاق دی ہے، میں نے اپنی بہو کے والدین کو فون کر کے بلایا اور بچی ان کے حوالے کر دی، وہ اپنی بیٹی کو لے کر چلے گئے، پھر اپنے طور پر انہوں نےکینیڈا وغیرہ سے مسئلہ معلوم کروایا ، انہوں نے بتایا کہ حالتِ حیض میں طلاق نہیں ہوتی، اب ہم آپ حضرات سے تحریری طور پر معلوم کروانا چاہتے ہیں کہ کیا مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟
2۔اگر طلاق واقع ہوئی ہے پھربھی بضد ساتھ رہنے کا کیا حکم ہے؟
3۔ مذکورہ صورت میں اگر بیٹا دوبارہ ازدواجی تعلقات قائم کرے توہم والدین اور بہن بھائیوں کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟ کیااس صورت میں ہم اپنے بیٹے سے تعلق قائم رکھ سکتے ہیں؟قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
1۔واضح رہے کہ حالتِ حیض میں طلاق دینا ناجائز اور گناہ ہے،تاہم اگر کسی نے حالتِ حیض میں طلاق دے دی تو وہ طلاق واقع ہوجائے گی،صورتِ مسئولہ میں سائل کے بیٹے نے حالتِ حیض میں اپنی بیوی کو ان الفاظ میں طلاق دی کہ" میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" تو اسی وقت ان کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں،مطلقہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو گئی، نکاح ٹوٹ چكا هے، اب رجوع یا دوبارہ نکاح نہیں ہو سکتا، مطلقہ اپنی پوری( عدت پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو ، اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک ) گزار کر کسی اور جگہ نکاح کر سکتی ہے۔
2۔طلاق کے بعد میاں بیوی کا ایک ساتھ رہنا اور ازدواجی تعلقات قائم کرنا ناجائز و حرام ہے۔
3۔ سائل کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹے کو شرعی مسئلے سے آگاہ کرے، اگر وہ سمجھانے کے باوجود نہ مانے تو اس سے اس وقت تک قطع تعلق کرےجب تک وہ شریعت کے مطابق عمل نہ کرے۔
صحیح البخاری میں ہے:
"عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، «أنه طلق امرأته وهي حائض على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسأل عمر بن الخطاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مره فليراجعها، ثم ليمسكها حتى تطهر، ثم تحيض، ثم تطهر، ثم إن شاء أمسك بعد، وإن شاء طلق قبل أن يمس، فتلك العدة التي أمر الله أن تطلق لها النساء."
(کتاب الطلاق، ج: 7، ص: 41، ط: سعید)
فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے:
"وقد اختلف في الحكمة في ذلك فقال الشافعي يحتمل أن يكون أراد بذلك أي بما في رواية نافع أن يستبرئها بعد الحيضة التي طلقها فيها بطهر تام ثم حيض تام ليكون تطليقها وهي تعلم عدتها إما بحمل أو بحيض أو ليكون تطليقها بعد علمه بالحمل وهو غير جاهل بما صنع إذ يرغب فيمسك للحمل أو ليكون إن كانت سألت الطلاق غير حامل أن تكف عنه وقيل الحكمة فيه أن لا تصير الرجعة لغرض الطلاق فإذا أمسكها زمانا يحل له فيه طلاقها ظهرت فائدة الرجعة لأنه قد يطول مقامه معها فقد يجامعها فيذهب ما في نفسه من سبب طلاقها فيمسكها وقيل إن الطهر الذي يلي الحيض الذي طلقها فيه كقرء واحد فلو طلقها فيه لكان كمن طلق في الحيض وهو ممتنع من الطلاق في الحيض فلزم أن يتأخر إلى الطهر الثاني الخ."
(کتاب الطلاق، ج: 9، ص: 349، ط: سعید)
الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:
"(والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين)...أو) واحدة في (حيض موطوءة)...(وتجب رجعتها) على الأصح (فيه) أي في الحيض رفعا للمعصية (فإذا طهرت) طلقها (إن شاء) أو أمسكها."
(قوله فإذا طهرت طلقها إن شاء) ظاهر عبارته أنه يطلقها في الطهر الذي طلقها في حيضه، وهو موافق لما ذكره الطحاوي، وهو رواية عن الإمام لأن أثر الطلاق انعدم بالمراجعة فكأنه لم يطلقها في هذه الحيضة فيسن تطليقها في طهرها لكن المذكور في الأصل وهو ظاهر الرواية كما في الكافي وظاهر المذهب، وقول الكل كما في فتح القدير إنه إذا راجعها في الحيض أمسك عن طلاقها حتى تطهر ثم تحيض ثم تطهر فيطلقها ثانية. ولا يطلقها في الطهر الذي يطلقها في حيضه لأنه بدعي، كذا في البحر والمنح، وعبارة المصنف تحتمله. اهـ. ح. ويدل لظاهر الرواية حديث الصحيحين «مر ابنك فليراجعها ثم ليمسكها حتى تطهر ثم تحيض فتطهر، فإن بدا له أن يطلقها فليطلقها قبل أن يمسها فتلك العدة كما أمر الله عز وجل» بحر."
(کتاب الطلاق، ج: 3،ص: 232،233، ط: سعید)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"عن أبي أيوب الأنصاري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يحل لرجل أن يهجر» ) بضم الجيم (أخاه) أي: المسلم، وهو أعم من أخوة القرابة والصحابة. قال الطيبي: وتخصيصه بالذكر إشعار بالعلية، والمراد به أخوة الإسلام، ويفهم منه أنه إن خالف هذه الشريطة وقطع هذه الرابطة جاز هجرانه فوق ثلاثة... قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب على أخيه ثلاث ليال لقلته، ولا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك. وفي حاشية السيوطي على الموطأ، قال ابن عبد البر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك ورفيقيه، حيث أمر صلى الله عليه وسلم أصحابه بهجرهم، يعني زيادة على ثلاث إلى أن بلغ خمسين يوما. قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه ،وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق."
(كتاب الأداب، باب ما ينهى عنه في التهاجر والتقاطع واتباع العورات، ج: 8، ص: 3147/3146، ط: دارالفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144512100818
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن