بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حلیم کو حلیم کہہ سکتے ہیں یا دلیم کہیں؟


سوال

حلیم کو حلیم نہیں کہنا چاہیے دلیم کہنا چاہیے کیونکہ حلیم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے ۔ اس کے متعلق وضاحت فرما دیں کہ کیا کہنا چاہیے ؟

جواب

واضح رہے کہ مختلف زبانوں کے الفاظ دیگر معانی کے لیے دوسری زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں، اسی طرح ایک لفظ کے متعدد معانی پائے جاتے ہیں، پس عربی زبان میں لفظ "الحلیم"  باری تعالی کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے۔  البتہ لفظ "حلیم" اردو زبان میں گندم سے بنی ایک مخصوص کھانے کی ڈش کے لیے استعمال ہوتا ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں۔ 

نیز  اللہ رب العزت کے کچھ صفاتی نام ایسے ہیں جو صرف باری تعالی کے ساتھ مخصوص ہیں، غیر اللہ پر اس کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا، جیسے "الرحمٰن"،’’الرزاق‘‘ وغیرہ۔  جب کہ کچھ ایسے صفاتی نام ہیں جو غیر اللہ کے لیے  استعمال کیے جا سکتے ہیں، جیسے: مصور،  وکیل، حلیم وغیرہ۔اور ’’حلیم‘‘ معنیٰ ہے’’بردبار‘‘۔ اور یہ صفت اللہ تعالیٰ کی صفات عامہ میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت خاصہ میں سے نہیں ہے۔  پس اس قانون کے تحت بھی "حلیم"  کہنے میں کوئی قباحت نہیں۔ کھانے کی ڈش کو  "حلیم" کہنے میں اللہ رب العزت کی اس صفت کی توہین بھی لازم نہیں آتی؛  اس  لیے  کہ جب کوئی کہتا ہے کہ میں "حلیم"  کھا رہا ہوں یا "حلیم" بنائی ہے تو سننے والوں کا ذہن کھانے کی مخصوص ڈش کی طرف ہی جاتا ہے نہ کہ باری تعالی کی صفت  "الحلیم"  کی طرف،  جیسے "طبیب"  کو  "حکیم"  کہنے سے توہین لازم نہیں آتی۔

تفسیر روح المعانی میں ہے :

"وذكر غير واحد من العلماء ‌أن ‌هذه ‌الأسماء منها ما يرجع إلى صفة فعلية ومنها ما يرجع إلى صفة نفسية ومنها ما يرجع إلى صفة سلبية. ومنها ما اختلف في رجوعه إلى شيء مما ذكر وعدم رجوعه وهو الله والحق أنه اسم للذات وهو الذي إليه يرجع الأمر كله، ومن هنا ذهب الجل إلى أنه الاسم الأعظم، وتنقسم قسمة أخرى إلى ما لا يجوز إطلاقه على غيره سبحانه وتعالى كالله والرحمن وما يجوز كالرحيم والكريم وإلى ما يباح ذكره وحده كأكثرها وإلى ما لا يباح ذكره كذلك كالمميت والضار فإنه لا يقال: يا مميت يا ضار بل يقال: يا محيي يا مميت ويا نافع يا ضار، والذي أراه أنه لا حصر لأسمائه عزت أسماؤه في التسعة والتسعين۔۔۔۔۔۔۔"

(سورۃ الاعراف،ج:5،ص:115،دارالکتب العلمیۃ)

تحفۃ المودود باحکام المولود میں ہے :

"ومما يمنع تسمية الإنسان به أسماء الرب تبارك وتعالى فلا يجوز التسمية بالأحد والصمد ولا بالخالق ولا بالرازق وكذلك سائر الأسماء المختصة بالرب تبارك وتعالى ولا تجوز تسمية الملوك بالقاهر والظاهر كما لا يجوز تسميتهم بالجبار والمتكبر والأول والآخر والباطن وعلام الغيوب۔۔۔۔۔وأما الأسماء التي تطلق عليه وعلى غيره كالسميع والبصير والرؤوف والرحيم فيجوز أن يخبر بمعانيها عن المخلوق ولا يجوز أن يتسمى بها على الإطلاق بحيث يطلق عليه كما يطلق على الرب تعالى."

(الباب الثامن فی ذکر تسمیتہہ واحکامہا،ص:125،دارالبیان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں