بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ نفاس میں دبر میں وطی کرنا


سوال

اگر کوئی شخص  نفاس کی حالت میں کپڑے کے اوپر سے اپنی بیوی کے دبر میں وطی کرے ،کیا یہ کام اس کے لیے جائز ہوگا یا نہیں؟اگر جائز نہ ہو اور کسی سے ایسا کام صادر ہو گیا تو اس کے لیے کیا کرنا چاہئے؟

جواب

واضح رہے كہ شریعت اسلامیہ میں  پیچھے کے راستے میں  وطی كرنا ہر حال ميں حرام ہے، چاہے عورت  حیض  یا نفاس سے ہو  یا نہ ہو (یعنی پاک ہو یا ناپاک)،حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے  بیوی کے ساتھ پیچھے کے راستے سے ہم بستری کرنے سے منع فرمایا ہے، اور  ایسا فعل کرنے والے پر حدیثِ مبارک میں لعنت اور سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں،اور  یہ فعل شرعاً و عرفاً انتہائی قبیح اور شرم ناک  ہے اور اس کا کرنے والا  سخت گناہ گار ہے، اس پر لازم ہے کہ صدق دل سے  اپنے اس فعل پر  فوراً  توبہ کرے اور آئندہ اس فعل سے باز رہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں   بیوی سے حالت نفاس میں  پیچھے کے راستے میں وطی کرنا حرام ہے، اگر  یہ فعل  صادر ہوگیا ہے تو کرنے والا شدید گناہ کا مرتکب ہوا ہے،  اس پر لازم ہے کہ صدق دل سے  اپنے اس فعل پر  فوراً  توبہ کرے اور آئندہ اس فعل سے باز رہے،نیز اگر  استطاعت ہو تو ایک دینار (4.374  گرام سونے کا سکہ) یا آدھا دینار (یا اس کی قیمت) صدقہ کریں۔

اور اگر بیوی کی پچھلی شرم گاہ میں دخول نہیں کیا، بلکہ کپڑے پہنے ہوئے اوپر سے تسکین حاصل کرلی تو  اس کا حکم یہ نہیں ہوگا۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

" عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ملعون من أتى امرأته في دبرها»."

(کتاب النکاح، باب في جامع النكاح، 215/2،المطبعة الأنصارية بدهلي)

ترجمہ:" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ملعون ہے وہ شخص جو اپنی بیوی سے پیچھے کے راستے سے ہم بستری کرے۔"

جامع الترمذی میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا فسا أحدكم فليتوضأ، ولا تأتوا النساء في ‌أعجازهن، فإن الله لا يستحيي من الحق."

(‌‌أبواب الرضاع،باب ما جاء في كراهية إتيان النساء في أدبارهن،456/2،دار الغرب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ:" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو اسے چاہیے کہ وہ وضو کرلے، اور تم لوگ بیویوں سے پیچھے کے راستے سے ہم بستری نہ کرو، پس بے شک اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا ہے۔"

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "لا ينظر الله إلى رجل جامع امرأته في دبرها."

(‌‌أبواب النكاح،باب النهي عن إتيان النساء في أدبارهن،108/3،ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ:" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں جواپنی عورت کے ساتھ پیچھے کے راستے سے بد فعلی کرے۔"

جامع الترمذی میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌من ‌أتى ‌حائضا، أو امرأة في دبرها، أو كاهنا، فقد كفر بما أنزل على محمد». لا نعرف هذا الحديث إلا من حديث حكيم الأثرم، عن أبي تميمة الهجيمي، عن أبي هريرة، وإنما معنى هذا عند أهل العلم على التغليظ"

(‌‌أبواب الطهارة،باب ما جاء في كراهية إتيان الحائض،242/1،ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

ترجمہ: "رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نےاپنی بیوی سے حیض کی حالت میں ہم بستری کی یا پیچھے کے راستے سے ہم بستری کی یا کسی کاہن کے پاس گیا تو تحقیق  اس نے محمد ﷺ پر اتارے گئے قرآن کا انکار کیا" (فقہاء نے اس  حدیث کو زجر اور توبیخ پر محمول کیا ہے)

الجوہرۃ النیرہ میں ہے:

"(قوله) : (ولا يأتيها زوجها) ذكره بلفظ الكناية تأدبا وتخلقا واقتداء بقوله تعالى {فإذا تطهرن فأتوهن} [البقرة: 222] ، وإن أتاها مستحلا كفر وإن أتاها غير مستحل فعليه التوبة والاستغفار، وقيل يستحب أن يتصدق بدينار، وقيل بنصف ديناروالتوفيق بينهما إن كان في أوله فدينار، وإن كان في آخره أو وسطه فنصف دينار وهل ذلك على الرجل وحده أو عليهما جميعا الظاهر أنه عليه دونها ومصرفه مصرف الزكاة، وله أن يقبلها ويضاجعها ويستمتع بجميع بدنها ما خلا ما بين السرة والركبة عندهما، وقال محمد يستمتع بجميع بدنها ويجتنب شعار الدم لا غير وهو موضع خروجه ولا يحل لها أن تكتم الحيض على زوجها ليجامعها بغير علم منه، وكذا لا يحل لها أن تظهر أنها حائض من غير حيض لتمنعه مجامعتها لقوله - عليه السلام -: «لعن الله الغائصة والمغوصة» فالغائصة التي لا تعلم زوجها أنها حائض فيجامعها بغير علم والمغوصة هي التي تقول لزوجها إنها حائض وهي طاهرة حتى لا يجامعها، وأما الوطء في الدبر فحرام في حالة الحيض والطهر لقوله تعالى {فأتوهن من حيث أمركم الله} [البقرة: 222] ، أي من حيث أمركم الله بتجنبه في الحيض وهو الفرج، «وقال - عليه السلام - إتيان النساء في أعجازهن حرام» وقال «ملعون من أتى ‌امرأة ‌في ‌دبرها» ، وأما قوله تعالى {فأتوا حرثكم أنى شئتم} [البقرة: 223] أي كيف شئتم ومتى شئتم مقبلات ومدبرات ومستقلبات وباركات بعد أن يكون في الفرج ولأن الله تعالى سمى الزوجة حرثا فإنها للولد كالأرض للزرع، وهذا دليل على تحريم الوطء في الدبر؛ لأنه موضع الفرث لا موضع الحرث."

(كتاب الطهارة،باب الحيض،30/1،ط:المطبعة الخيرية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"اللواطة مع مملوكه أو مملوكته أو امرأته حرام. المرأة إذا انقطع حجابها الذي بين القبل والدبر لا يجوز للزوج أن يطأها إلا أن يعلم أنه يمكنه أن يأتيها في القبل من غير الوقوع في الدبر، وإن شك فليس له أن يطأها كذا في الغرائب. والله أعلم."

(كتاب الكراهية، الباب الثامن فيما يحل للرجل النظر إليه وما لا يحل له،330/5، ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100096

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں